Jump to content

دل خدا جانے کس کے پاس رہا

From Wikisource
دل خدا جانے کس کے پاس رہا
by میر حسن دہلوی
316535دل خدا جانے کس کے پاس رہامیر حسن دہلوی

دل خدا جانے کس کے پاس رہا
ان دنوں جی بہت اداس رہا

کیا مزا وصل میں ملا اس کے
میں رہا بھی تو بے حواس رہا

یوں کھلا اپنا یہ گل امید
کہ سدا دل یہ داغ یاس رہا

شاد ہوں میں کہ دیکھ میرا حال
غیر کرنے سے التماس رہا

جب تلک کہ جیا حسنؔ تب تک
غم مرے دل پہ بے قیاس رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.