Jump to content

دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں

From Wikisource
دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
by میر حسن دہلوی
316553دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میںمیر حسن دہلوی

دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
جس طرح گہر آب میں اور آب گہر میں

اک بار بھی دیکھا نہ اسے پاس سے جا کر
آیا ہی نظر وہ تو کہیں راہ گزر میں

ہر چند کہ ہے شام و سحر وہ ہی پر اس بن
وہ لطف نہ اب شام میں ہے اور نہ سحر میں

قسمت سے مدد چاہتا ہوں اتنی کہ ہر وقت
مانند صبا ساتھ رہوں اس کے سفر میں

اک بار تو نالے کی ہو رخصت ہمیں صیاد
پنہاں رکھیں ہم کب تئیں فریاد جگر میں

ہوش و خرد و صبر و تواں اٹھ چلے اک ایک
جاتے ہی ترے چال پڑی دل کے نگر میں

کیدھر کو نکل جاویں حسنؔ کیا کریں ہم آہ
باہر ہی یہ دل اپنا نہ لگتا ہے نہ گھر میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.