دل دیا تب کہ بہت زلف رسا نے چاہا
Appearance
دل دیا تب کہ بہت زلف رسا نے چاہا
آپ فرماتے ہیں یوں اس کی بلا نے چاہا
تا دم مرگ نہ ہوں تجھ سے مری جان جدا
میں نے چاہا تھا ولیکن نہ خدا نے چاہا
چل بسے دیکھتے ہی چال ادا کی ہم تو
ہو وے قصہ ہی ادا تیری ادا نے چاہا
گھر سے کس طرح سے یوں حضرت منعم نکلیں
دی نہ بوبو نے اجازت نہ دوانے چاہا
ہو کے یک دست ترے اور ہی اے یار نمود
جب تجھے ہم سے کسی بے سر و پا نے چاہا
مرتے مرتے بھی نہ یک بار تجھے دیکھ لیا
اس قدر بھی نہ مری جان قضا نے چاہا
کوئی اپنا نہ ہوا سلسلہ جنبان جنوں
ایک فی الجملہ اسی زلف دوتا نے چاہا
جس طرح چاہو ستاؤ مجھے ہر روز بتو
اس کا اک رات عوض لوں گا خدا نے چاہا
نام عنقا سے بھی ننگ آتا ہے احسانؔ مجھے
شہرۂ نام کو کیوں اہل فنا نے چاہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |