دل سوختہ کو اپنے جلایا غضب کیا
Appearance
دل سوختہ کو اپنے جلایا غضب کیا
نیرنگ تم نے کیا یہ دکھایا غضب کیا
زندہ کیا ہے حسرت مردہ کو بے وفا
تو بعد مرگ گور پہ آیا غضب کیا
یہ درد درد مند تماشا دکھائے گا
آفت رسیدہ کو جو ستایا غضب کیا
ہم خانماں خراب بھٹکتے کہاں پھریں
بیٹھے بٹھائے اس نے اٹھایا غضب کیا
سب کہہ رہے تھے بلبل کشمیر کے حریف
اس گل نے اپنا یار بنایا غضب کیا
مجذوب و مست پیر مغاں کیوں نہ وہ رہے
ساقیؔ کو جام جذب پلایا غضب کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |