دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
Appearance
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ
کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا
دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں
واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا
مانند حرف صفحۂ ہستی سے اٹھ گیا
دل بھی مرا جریدۂ عالم میں فرد تھا
تھا پشتہ ریگ باد یہ اک وقت کارواں
یہ گرد باد کوئی بیاباں نورد تھا
گزری مدام اس کی جوانان مست میں
پیر مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا
عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے
دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |