دل فرقت حبیب میں دیوانہ ہو گیا
دل فرقت حبیب میں دیوانہ ہو گیا
اک مجھ سے کیا جہان سے بیگانہ ہو گیا
قاصد کو یہ ملا مرے پیغام کا جواب
تو بھی ہماری رائے میں دیوانہ ہو گیا
دیکھا جو ان کو بام پہ غش آ گیا مجھے
تازہ کلیم و طور کا افسانہ ہو گیا
ہاں ہاں تمہارے حسن کی کوئی خطا نہیں
میں حسن اتفاق سے دیوانہ ہو گیا
دیکھا گیا نہ بزم میں سوز و گداز شمع
پھولوں کی پنکھیاں پر پروانہ ہو گیا
یوں سب سے پوچھتے ہیں وہ میرے جنوں کا حال
دیوانہ بن گیا ہے کہ دیوانہ ہو گیا
آنسو بہائے فرقت ساقی میں اس قدر
لبریز اپنی عمر کا پیمانہ ہو گیا
دل ان کے بس میں ہے مجھے کیا دل پر اختیار
کیسا رفیق عشق میں بیگانہ ہو گیا
جوش جنوں میں چھوڑ دئے سب نے اپنے گھر
آباد ان کے عہد میں ویرانہ ہو گیا
ان کو تو اپنی جلوہ نمائی سے کام ہے
اس کی خبر نہیں کوئی دیوانہ ہو گیا
اب ہر طرف رقیب پر اٹھتی ہیں انگلیاں
مشہور ان کے عشق کا افسانہ ہو گیا
اس درجہ ہجرؔ ہوش ربا ہے کسی کا حسن
جس کی نگاہ پڑ گئی دیوانہ ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |