دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
Appearance
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
دل ترا سا نہیں پتھر میرا
یوں تو روٹھے ہیں مگر لوگوں سے
پوچھتے حال ہیں اکثر میرا
راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا
کہتے ہیں آہ کی دیکھیں تاثیر
نہ ہوا وصل میسر میرا
یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا
کیا سنوں اے دل بدظن تیری
دوست ہے تو وہ مقرر میرا
لطف رنجش کے دکھاتا تم کو
کیا کہوں بس نہیں دل پر میرا
انہیں ملنا نہیں مجھ سے منظور
کس کی تقصیر مقدر میرا
پوچھنا کیا ہے چلیں جائیں آپ
زور چلتا نہیں تم پر میرا
غیر کا حال ہے کہنا منظور
کہتے ہیں ذکر ملا کر میرا
رشک دشمن کا گلا کرتا ہوں
ہے قصور اس میں سراسر میرا
خواہش دل کہیں بر آئے نظامؔ
دل کئی دن سے ہے مضطر میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |