دل لیا جس نے بے وفائی کی
Appearance
دل لیا جس نے بے وفائی کی
رسم ہے کیا یہ دل ربائی کی
تذکرہ صلح غیر کا نہ کرو
بات اچھی نہیں لڑائی کی
تم کو اندیشۂ گرفتاری
یاں توقع نہیں رہائی کی
وصل میں کس طرح ہوں شادی مرگ
مجھ کو طاقت نہیں جدائی کی
دل نہ دینے کا ہم کو دعویٰ ہے
کس کو ہے لاف دل ربائی کی
ایک دن تیرے گھر میں آنا ہے
بخت و طالع نے گر رسائی کی
دل لگایا تو ناصحوں کو کیا
بات جو اپنے جی میں آئی کی
شیفتہؔ وہ کہ جس نے ساری عمر
دین داری و پارسائی کی
آخر کار مے پرست ہوا
شان ہے اس کی کبریائی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |