دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا
Appearance
دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا
مرنا فراق یار میں دشوار ہی رہا
ہر دم یہ شوق تھا اسے قربان کیجئے
میں وصل میں بھی جان سے بے زار ہی رہا
احسان عفو جرم سے وہ شرمسار ہوں
بخشا گیا میں تو بھی گنہ گار ہی رہا
ہوتی ہیں ہر طرح سے مری پاسداریاں
دشمن کے پاس بھی وہ مرا یار ہی رہا
دن پہلوؤں سے ٹال دیا کچھ نہ کہہ سکے
ہر چند ان کو وصل کا انکار ہی رہا
زاہد کی توبہ توبہ رہی گھونٹ گھونٹ پر
سو بوتلیں اڑا کے بھی ہشیار ہی رہا
دیکھیں ہزار رشک مسیحا کی صورتیں
اچھا رہا جو عشق کا بیمار ہی رہا
صدقے میں تم نے چھوڑ دیئے ہیں بہت اسیر
میں بھی رہا ہوا کہ گرفتار ہی رہا
لذت وفا میں ہے نہ کسی کی جفا میں ہے
دل دار ہی رہا نہ دل آزار ہی رہا
جلوہ کے بعد وصل کی خواہش ضرور تھی
وہ کیا رہا جو عاشق دیدار ہی رہا
کہتے ہیں جل کے غیر محبت سے داغؔ کی
معشوق اس کے پاس وفادار ہی رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |