دل مرا آج میرے پاس نہیں
Appearance
دل مرا آج میرے پاس نہیں
مجھ میں کچھ ہوش اور حواس نہیں
دل لگایا جہاں جفا دیکھی
کیا بلا عشق مجھ کو راس نہیں
پاس ہے یاس گرد ہے دل کی
اور اب کوئی آس پاس نہیں
آپ تو اپنا عرض کر لے حال
دل ہمیں تاب التماس نہیں
یوں خدا چاہے تو ملا دے اسے
وصل کی پر ہمیں تو آس نہیں
میں بھی کچھ ہو گیا ہوں پژمردہ
دل ہی میرا فقط اداس نہیں
کیا ملے تجھ سے کوئی دل دادہ
آشنائی کی تجھ میں باس نہیں
ہے غفور الرحیم تیری ذات
سب سے ہے یاس تجھ سے یاس نہیں
ایک ڈر ہے تو دوست کا مجھ کو
دشمنوں سے تو کچھ ہراس نہیں
تیرے خاطر یہ سب سے دور ہوا
تو بھی تجھ کو حسنؔ کا پاس نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |