دل مرا آج یار میں ہے گا
Appearance
دل مرا آج یار میں ہے گا
کس خزاں میں بہار میں ہے گا
گالیاں مجھ کو دے ہے دینے دو
کچھ نہ بولو خمار میں ہے گا
سن کے کہنے لگا تو جانے ہے
کہ نشے کے اتار میں ہے گا
گالیاں میں تو سب کو دیتا ہوں
ایک تو کس شمار میں ہے گا
حاتمؔ ایسی کہاں ہے لذت وصل
جو مزا انتظار میں ہے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |