Jump to content

دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت

From Wikisource
دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت (1895)
by رنج حیدرآبادی
324377دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت1895رنج حیدرآبادی

دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت
روشن اس گھر میں ہیں چراغ بہت

میں نہ روؤں تو کیا کروں ساقی
بھر کے دیتا نہیں ایاغ بہت

شب کو وعدہ ہے ان کے آنے کا
کیوں نہ روشن کروں چراغ بہت

دل ویراں کو دیکھ کر بولے
گاؤں ہوتے ہیں بے چراغ بہت

غیر کو سر چڑھائیں وہ توبہ
صدقے کر ڈالے ایسے زن بہت

دل پر داغ ہی کی سیر کرو
ہے تمہارے لئے یہ باغ بہت

مجھ سے ملتے ہیں جب یہ کہتے ہیں
آپ کو ہو گیا دماغ بہت

غم سے پائی نجات مرقد میں
مر کے حاصل ہوا فراغ بہت

نقش پا تک ملا نہ ان کا کہیں
چھان مارا ہے کوہ و راغ بہت

کچھ تو فرمائیے جناب رنجؔ
آج ہیں آپ باغ باغ بہت


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.