دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
Appearance
دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
جمع اس گھر میں ہیں مہمان بہت
آئے تو دست جنوں زوروں پر
چاک کرنے کو گریبان بہت
میری جانب سے دل اس کا نہ پھرا
دشمنوں نے تو بھرے کان بہت
لے کے اک دل غم کونین دیا
آپ کے مجھ پہ ہیں احسان بہت
ترک الفت کا ہمیں کو ہے غم
وہ بھی ہیں دل میں پشیمان بہت
دل کے ویرانے کا ہے عالم کچھ اور
ہم نے دیکھے ہیں بیابان بہت
خاک ہونے کو ہزاروں حسرت
خون ہونے کو ہیں ارمان بہت
صدمۂ ہجر اٹھانا مشکل
جان دینا تو ہے آسان بہت
رشک جن پر ہے فرشتوں کو حفیظؔ
ایسے دنیا میں ہیں انسان بہت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |