دل ناکام کے ہیں کام خراب
Appearance
دل ناکام کے ہیں کام خراب
کر لیا عاشقی میں نام خراب
اس خرابات کا یہی ہے مزہ
کہ رہے آدمی مدام خراب
دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں
کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب
ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی
میری مٹی ہوئی تمام خراب
وہ بھی ساقی مجھے نہیں دیتا
وہ جو ٹوٹا پڑا ہے جام خراب
کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا
وہ بھی دشوار ناتمام خراب
واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں
خوب رو ہو کے یہ کلام خراب
چال کی رہنمائے عشق نے بھی
وہ دکھایا جو تھا مقام خراب
داغؔ ہے بدچلن تو ہونے دو
سو میں ہوتا ہے اک غلام خراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |