Jump to content

دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا

From Wikisource
دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا
by مضطر خیرآبادی
308585دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوامضطر خیرآبادی

دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا
دشوار سے یہ مرحلہ دشوار تر ہوا

ابھرا ہر اک خیال کی تہہ سے ترا خیال
دھوکا تری صدا کا ہر آواز پر ہوا

راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اٹھے چراغ
شاید ترا خیال مرا ہم سفر ہوا

سمٹی تو اور پھیل گئی دل میں موج درد
پھیلا تو اور دامن غم مختصر ہوا

لہرا کے تیری زلف بنی اک حسین شام
کھل کر ترے لبوں کا تبسم سحر ہوا

پہلی نظر کی بات تھی پہلی نظر کے ساتھ
پھر ایسا اتفاق کہاں عمر بھر ہوا

دل میں جراحتوں کے چمن لہلہا اٹھے
مضطرؔ جب اس کے شہر سے اپنا گزر ہوا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.