دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے
Appearance
دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے
ہر زخم شوق سے لب حسرت گزیدہ ہے
اس گرم اضطراب سے دل جل گیا خدا
پہلو میں میرے دل ہے کہ برق طپیدہ ہے
چوسا دہان زخم نے اس کو ہے اس طرح
پیکان تیر یار زبان مکیدہ ہے
ناصح جنوں کی بخیہ گری کی ہوس نہیں
ہر تار جیب اب تو گریباں دریدہ ہے
غنچہ کی طرح خاک رکھیں زر کو باندھ کر
جوں بولے کل یہاں سے تو جانا جریدہ ہے
کچھ آج زلزلہ سا زمیں کو ہے گور میں
تسکینؔ بے قرار مگر آرمیدہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |