دل کو اے عشق سوئے زلف سیہ فام نہ بھیج
دل کو اے عشق سوئے زلف سیہ فام نہ بھیج
رہزنوں میں تو مسافر کو سر شام نہ بھیج
دیکھ ہو جاؤں گا غیروں کے گلے کا میں ہار
ہار پھولوں کے تو اے شوخ گل اندام نہ بھیج
بھر نظر صورت گل دیکھ تو لیں اے بے درد
ہائے صیاد ابھی ہم کو تہ دام نہ بھیج
جب وہ بھیجے ہے مجھے مے تو کہیں ہیں یوں غیر
یہ بہک جائے گا بس اور اسے جام نہ بھیج
بھیجوں اس پاس جو قاصد کو دوبارہ تو کہے
باز آیا، نہیں لینے کا میں انعام نہ بھیج
کوچۂ یار میں پہنچے ہیں تو بس رہنے دے
جیتے جی یاں سے کہیں گردش ایام نہ بھیج
دم بہ دم بھیجے ہے قلیاں ہی کو کیا منہ سے لگا
لب سے بھی لب کو ملا بوسہ بہ پیغام نہ بھیج
بعد مدت کے تجھے پایا ہے تنہا بخدا
آج تو کام کو یاں سے بت خودکام نہ بھیج
دے کبھی بوسۂ چشم و لب جاں بخش بھی جاں
صرف سوغات ہمیں بوسہ بہ پیغام نہ بھیج
گالیاں تو ہیں محبت کی عبارت پیارے
کب میں کہتا ہوں کہ لکھ کر مجھے دشنام نہ بھیج
پر یہ دھڑکا ہے کہ جاوے نہ کہیں خط پکڑا
کر کے سر نامے پہ تحریر مرا نام نہ بھیج
جرأتؔ اب تجھ سے وہ روٹھا تو منا کیونکہ میں لاؤں
تو ہی پھر دینے لگے گا مجھے الزام نہ بھیج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |