Jump to content

دل کو چشم یار نے جب جام مے اپنا دیا

From Wikisource
دل کو چشم یار نے جب جام مے اپنا دیا
by نظیر اکبر آبادی
316015دل کو چشم یار نے جب جام مے اپنا دیانظیر اکبر آبادی

دل کو چشم یار نے جب جام مے اپنا دیا
ان سے خوش ہو کر لیا اور کہہ کے بسم اللہ پیا

دیکھ اس کی جامہ زیبی گل نے اپنا پیرہن
اس قدر پھاڑا کہ بلبل سے نہیں جاتا پیا

بے قراری نے نگاہ سیم بر پھیری ادھر
کی عنایت ہم کو اس سیماب نے یہ کیمیا

اس کے کوچے میں جسے جا بیٹھنے کو مل گئی
مسند زرباف پر غالب ہے اس کا بوریا

دل چھپا بیٹھا تو اس زلف مسلسل سے نظیرؔ
اے اسیر دام نافہمی یہ تو نے کیا کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.