دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
Appearance
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
کیوں ہے ایسا اداس کیا جانے
اپنے غم میں بھی اس کو صرفہ ہے
نہ کھلا جانے وہ نہ کھا جانے
اس تجاہل کا کیا ٹھکانا ہے
جان کر جو نہ مدعا جانے
کہہ دیا میں نے راز دل اپنا
اس کو تم جانو یا خدا جانے
کیا غرض کیوں ادھر توجہ ہو
حال دل آپ کی بلا جانے
جانتے جانتے ہی جانے گا
مجھ میں کیا ہے ابھی وہ کیا جانے
کیا ہم اس بد گماں سے بات کریں
جو ستائش کو بھی گلہ جانے
تم نہ پاؤ گے سادہ دل مجھ سا
جو تغافل کو بھی حیا جانے
ہے عبث جرم عشق پر الزام
جب خطاوار بھی خطا جانے
نہیں کوتاہ دامن امید
آگے اب دست نارسا جانے
جو ہو اچھا ہزار اچھوں کا
واعظ اس بت کو تو برا جانے
کی مری قدر مثل شاہ دکن
کسی نواب نے نہ راجا نے
اس سے اٹھے گی کیا مصیبت عشق
ابتدا کو جو انتہا جانے
داغؔ سے کہہ دو اب نہ گھبراؤ
کام اپنا بتا ہوا جانے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |