دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
Appearance
دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
درد میں دل ڈوب کر قطرے سے دریا بن گیا
ان کے آغوش مشیت میں ہے ناکامی مری
کام کچھ اس طرح بگڑا ہے کہ گویا بن گیا
دل کی رت ایسی تو یاد یار نے بدلی نہ تھی
یہ چمن اجڑا ہی اس ڈھب سے کہ صحرا بن گیا
نقش موہوم حیات افسانہ در افسانہ تھا
جب یہ نقش ابھرا تو اک حرف تمنا بن گیا
لو مبارک لذت غم بھی ہے اب تو ناگوار
دل محبت میں جو بننا چاہیئے تھا بن گیا
جلوۂ کثرت خود اپنا شوق بے اندازہ تھا
محفل لیلیٰ مری نظروں میں لیلیٰ بن گیا
میری محرومی بھی رسوا ہے کہ فانیؔ حال دل
ان کے کانوں تک نہ پہنچا اور فسانا بن گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |