دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
Appearance
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے
عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی کے بیچ
اس طرح کے خرج لا حاصل کو دولت چاہیے
عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا
آدمی ہووے کسی پیشہ میں جرأت چاہیے
ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیے
عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بعد اس جا برابر ہے محبت چاہیے
نازکی کو عشق میں کیا دخل ہے اے بوالہوس
یاں صعوبت کھینچنے کو جی میں طاقت چاہیے
تنگ مت ہو ابتداے عاشقی میں اس قدر
خیریت ہے میرؔ صاحب دل سلامت چاہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |