دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
Appearance
دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
خواہش وصل جدا حسرت دیدار جدا
زاہدوں سے نہ بنی حشر کے دن بھی یارب
وہ کھڑے ہیں تری رحمت کے طلب گار جدا
جی جلانے کو ستانے کو مٹانے کو مجھے
وہ جدا غیر جدا چرخ ستم گار جدا
بجلیاں حضرت موسیٰ پہ گریں دو اک بار
شعلۂ شوق جدا شعلۂ دیدار جدا
ہو گئے وہ سحر وصل یہ کہہ کر رخصت
تجھ سے کرتا ہے مجھے چرخ ستم گار جدا
قتل کرتے ہی مجھے جلوہ نمائی بھی ہوئی
در پہ ہنگامہ الگ ہے پس دیوار جدا
زاہدوں کی تری رحمت پہ چڑھائی ہے الگ
ٹولیاں باندھ کر آئے ہیں گنہ گار جدا
وضع کا پاس بھی ہے بیخودؔ مے خوار ضرور
کاگ بوتل سے نہ کیجئے سر بازار جدا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |