دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
Appearance
دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
یہ سماں یہ چین دنیا میں کبھی ملتا نہیں
دیکھیو نفرت کہ میرا نام گر لیوے کوئی
روبرو اس کے، تو پھر وہ اس سے بھی ملتا نہیں
کیا کروں نا سازیٔ طالع کا میں شکوہ کہ آہ
جس کو جی چاہے ہے میرا اس کا جی ملتا نہیں
کھو کے مجھ کو ہاتھ سے سنتے ہو پچھتاؤ گے تم
مانو کہنا بھی کہ مجھ سا آدمی ملتا نہیں
کس طرف جاتا رہا کیا جانے وہ وحشی مزاج
ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم اور مصحفیؔ ملتا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |