دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
Appearance
دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
سخت حیراں ہوں میں اپنی سخت جانی دیکھ کر
شام سے تا صبح فرقت صبح سے تا شام ہجر
ہم چلے کیا کیا نہ لطف زندگانی دیکھ کر
یوں تو لاکھوں غمزدہ ہوں گے مگر اے آسماں
جب تجھے جانوں کہ لا دے میرا ثانی دیکھ کر
اب تپ فرقت سے یہ کچھ ضعف طاری ہے کہ آہ
دنگ رہ جاتی ہے ہم کو نا توانی دیکھ کر
واسطے جس کے ہوئے بحر فنا کے آشنا
وہ پسیجا بھی نہ اپنی جاں فشانی دیکھ کر
باز آ بیمارؔ اس کے عشق سے جانے بھی دے
ترس آتا ہے یہ تیری نوجوانی دیکھ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |