دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
شمع ساں محفل جاناں ہی میں جل جاؤں گا
دور سے بھی اسے دیکھوں تو یہ چتون میں کہے
آ کے دیدے ابھی تلووں تلے مل جاؤں گا
دل مضطر یہ کہے ہے وہیں لے چل ورنہ
توڑ چھاتی کے کواڑوں کو نکل جاؤں گا
میں ہوں خورشید سر کوہ یقیں ہے کہ وہ ماہ
آئے گا بام پہ تب جب کہ میں ڈھل جاؤں گا
آج بھی کوئی نہ لے جائے گا واں مجھ کو تو بس
کل نہیں ہے مجھے میں جی ہی سے کل جاؤں گا
واں سے اٹھتا ہوں تو کہتا ہے یہ پائے رفتار
جب زمیں پر تو رکھے گا میں پھسل جاؤں گا
بہ خدا حسن بتاں کا یہی سب سے ہے کلام
وہ چھلاوا ہوں کہ تم سب کو میں چھل جاؤں گا
آ کے برسوں میں وہ مجھ پاس یہ شب کہنے لگے
یاں ٹھہرنے میں بہت سے ہیں خلل جاؤں گا
تیغہ قاتل کا کہے ہے کہ دوالی بندو
موٹھ کی طرح سے تم سب پہ میں چل جاؤں گا
گو مزاج اس کا یہ بدلا کہ کہے ہے مجھے یوں
دیکھو تم آئے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا
پر رہا جائے گا کب ہے مری حالت تغییر
یوں نہ جاؤں گا تو میں بھیس بدل جاؤں گا
جرأتؔ اشعار جنوں خیز کہہ اب اور کہ میں
لے کے یہ تربت سودا پہ غزل جاؤں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |