دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا
Appearance
دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا
بازار گرم ہے مرے دل کے کباب کا
خوباں کو کس طرح سے لگا لے ہے بات میں
بندا ہوں اپنی طبع ظرافت مآب کا
جو نامہ بر گیا نہ پھرا ایک اب تلک
اے دل تو انتظار عبث ہے جواب کا
حسرت یہ ہے کہ رات کو آئے وہ ماہرو
دولت سے اس کی دید کروں ماہتاب کا
الطاف میں بھی اس کے اذیت ہے سو طرح
لاؤں کہاں سے حوصلہ اس کے عتاب کا
رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر
پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا
حاتمؔ یہی ہمیشہ زمانے کی چال ہے
شکوہ بجا نہیں ہے تجھے انقلاب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |