دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانہ کیا
Appearance
دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانہ کیا
متصل جانے نہ پایا میں کہ ویرانہ کیا
دیکھتے ہی مے کو ساغر کا نہ کھینچا انتظار
مارے جلدی کے میں اپنا ہاتھ پیمانہ کیا
طرفہ تر یہ ہے کہ اپنا بھی نہ جانا اور یوں ہی
اپنا اپنا کہہ کے مجھ کو سب سے بیگانہ کیا
کچھ بہک کر بات گر بولوں تو ہوں معذور میں
مجھ کو ہستی نے تری آنکھوں کی مستانہ کیا
بے وفائی نے یہ کس کی تجھ کو سمجھایا حسنؔ
ان دنوں کیوں تو نے کم اس طرف جانا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |