Jump to content

دور کنارا

From Wikisource
دور کنارا
by میراجی
298410دور کنارامیراجی

پھیلی دھرتی کے سینے پہ جنگل بھی ہیں لہلہاتے ہوئے
اور دریا بھی ہیں دور جاتے ہوئے
اور پربت بھی ہیں اپنی چپ میں مگن
اور ساگر بھی ہیں جوش کھاتے ہوئے
ان پہ چھایا ہوا نیلا آکاش ہے
نیلے آکاش میں نور لاتے ہوئے دن کو سورج بھی ہے
شام جانے پہ ہے چاند سے سامنا
رات آنے پہ ننھے ستارے بھی ہیں جھلملاتے ہوئے
اور کچھ بھی نہیں
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی بس یہی بات ہے
اور کچھ بھی نہیں
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا
لہر سے لہر ٹکرائے کیسے کہو
اور ساحل سے چھو جائے کیسے کہو
لہر کو لہر سے دور کرتی ہوئی بیچ میں سینکڑوں اور لہریں بھی ہیں
اور کچھ بھی نہیں
چھائی مستی جو دل پر مرے بھول کی
ایک ہی بات رہ رہ کے کہتا ہے
ایک ہی دھیان کے درد میں دل کو لذت ملی
آرزو کی کلی کب کھلی
ایک ہی موج پر میں تو بہتا رہا
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی
چاہے دھرتی کے سینے پہ جنگل نہ ہوں
چاہے پربت نہ ہوں چاہے دریا نہ ہوں چاہے ساگر نہ ہوں
نیلے آکاش میں چاند تارے نہ ہوں کوئی سورج نہ ہو
رات دن ہوں نہ دنیا میں شام و سحر
کوئی پروا نہیں
ایک ہی دھیان ہے
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.