دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
Appearance
دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
دل کے ہاتھوں کوئی آزار نہ آنے پائے
کیجیے حسن پرستی مگر اس قید کے ساتھ
پیاری صورت پہ ذرا پیار نہ آنے پائے
خانۂ یار گھر آفت کا ہے اے رہ گیرو
جسم پر سایۂ دیوار نہ آنے پائے
اے جنوں تیرا زمانے میں رہے جب تک دور
ہوش میں عاشق سرشار نہ آنے پائے
آپ پر عقدۂ نازک کمری کھل جاتا
تا کمر گیسوئے خم دار نہ آنے پائے
چشم محبوب سے نرگس کو برابر نہ کرو
پاس بیمار کے بیمار نہ آنے پائے
بحرؔ کچھ غم نہ کرو دل کے جدا ہونے کا
اب بغل میں یہ بد اطوار نہ آنے پائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |