Jump to content

دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے

From Wikisource
دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
by مرزا اظفری
316447دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلےمرزا اظفری

دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
کون نت اٹھ کے مری جان یہ پاپڑ بیلے

چولی مسکی ہے کھلے بند گریباں یہ پھٹا
کون سی جائے سے بن آئے میاں البیلے

میل تیرے کا کوئی ہم کو سجیلا نہ ملا
دیکھ ڈالے ہیں ہر اک شہر کے میلے ٹھیلے

ظلم کی رہتی ہے مجھ پر جو یہ لے لے دے دے
کائنات اپنی مرے پاس ہے جو کچھ لے لے

نوش فرماتے ہو باتوں میں مزے سے اکثر
دھیندس اور کدوہی اور کھیرے چچیندے کیلے

دل بھرا ہے تو کہو اور نہیں تو بسم اللہ
اور من مانتی دس لاکھ تو گالی دے لے

تیرے دھمکانے سے کوئی اظفریؔ دھمکے ہے گا
کھیل ایسے ہیں میاں ہم نے بہت سے کھیلے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.