دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا
دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا
جان مشتاق کے پیدا ہوئے خواہاں کیا کیا
آفتیں ڈھاتی ہے وہ نرگس فتاں کیا کیا
داغ دیتی ہے مجھے گردش دوراں کیا کیا
پھر سکی میرے گلے پر نہ چھری ہے ظالم
ورنہ گردوں سے ہوئے کار نمایاں کیا کیا
حسن میں پہلوئے خورشید مگر دابے گا
دور کھنچتا ہے ہمارا مہ تاباں کیا کیا
روئے دلبر کی صفا سے تھا بڑا ہی دعویٰ
سامنے ہو کے ہوا آئنہ حیراں کیا کیا
آنکھیں گیسو کے تصور میں رہا کرتی ہیں بند
لطف دکھلاتا ہے یہ خواب پریشاں کیا کیا
گردش چشم دکھاتا ہے کبھی گردش جام
میری تدبیر میں پھرتا ہے یہ دوراں کیا کیا
چشم بینا بھی عطا کی دل آگہ بھی دیا
میرے اللہ نے مجھ پر کئے احساں کیا کیا
دوست نے جب نہ دم ذبح سسکتا چھوڑا
میرے دشمن ہوئے ہنس ہنس کے پشیماں کیا کیا
گردش نرگس فتاں نے تو دیوانہ کیا
دیکھو جھنکوائے کنوئیں چاہ زنخداں کیا کیا
جل گیا آگ میں آپ اپنے میں مانند چنار
پیستے رہ گئے دانت ارہ و سوہاں کیا کیا
کچھ کہے کوئی میں منہ دیکھ کے رہ جاتا ہوں
کم دماغی نے کیا ہے مجھے حیراں کیا کیا
گرم ہرگز نہ ہوا پہلوئے خالی بے یار
یاد آوے گی مجھے فصل زمستاں کیا کیا
کوئی مردود خلائق نہیں مجھ سا آتشؔ
کیا کہوں کہتے ہیں ہندو و مسلماں کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |