دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی
دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی
کہ آنکھوں میں پھرتی ہے صورت کسی کی
نہ پوچھو یہ ہیں سکۂ داغ کس کے
یہ دولت ملی ہے بدولت کسی کی
پر ارمان احباب دنیا سے اٹھے
فلک نے نکالی نہ حسرت کسی کی
یہ عالم ہے اپنا کہ کہتا ہے عالم
الٰہی نہ ہو ایسی حالت کسی کی
عجب بے مروت سے پالا پڑا ہے
کہاں تک کرے کوئی منت کسی کی
اڑا لے گئی سرو سے قمریوں کو
قیامت ہے بوٹا سی قامت کس کی
میں اس دل کا ساتھی نہیں عاشقی میں
بلا میری لے سر پر آفت کسی کی
نظر میں ہیں یاران رفتہ کے جلسے
خوش آتی نہیں مجھ کو صحبت کسی کی
وہ کیا دن تھے اے دل تجھے یاد ہے کچھ
وہ میری خوشامد وہ نخوت کسی کی
بہت بد ہے اے عشق سرکار تیرے
نہ عزت کسی کی نہ حرمت کسی کی
شکنجے میں رہتا ہے دل آدمی کا
خدا بند رکھے نہ حاجت کسی کی
کہے مجھ کو جو جس کا جی چاہے لیکن
کبھی مجھ سے ہوگی نہ غیبت کسی کی
عبث بحرؔ مرتے ہو تم ہر کسی پر
مبارک نہیں تم کو چاہت کسی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |