دکھا اے ناخن غم لطف باہم ایسے ساماں پر
Appearance
دکھا اے ناخن غم لطف باہم ایسے ساماں پر
گریباں کا ہو منہ دامن پہ دامن کا گریباں پر
وہ سوئے ہو کے بے پردہ یہاں کس کس تمنا سے
مگر صدقے ہوا کے رات بھر روئے درخشاں پر
تمہارے دست نازک نے جو کیں اٹھکھیلیاں اس سے
اتر آیا گریباں مسکرا کر پائے داماں پر
سکھایا چشم کو کیا آتش غم نے دم گریہ
ہر اک آنسو بنا ہے آبلہ دامان مژگاں پر
جگر میں کس مزے سے چٹکیاں لیتا ہے چھپ چھپ کر
گمان شاہد پہلو ہے مجھ کو درد پنہاں پر
میں وہ شیدائے گیسو ہوں کہ اکثر موسم گل میں
مرا پائے نظر پڑتا ہے زنجیر گلستاں پر
وہ بلبل ہوں غزل خوان اے شگفتہؔ باغ عالم میں
گراں ہوتا نہیں میرا سخن طبع سخنداں پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |