Jump to content

دہلی مرحوم

From Wikisource

کتاب

[edit]

ہندوستان کا قدیم دار الخلافت دہلی ایک ایسا شہر ہے جس کی تاریخ کی طرف توجہ کی جائے تو ہمیں بہ نسبت دیگر مقامات کے یہاں زیادہ دلچسپی کے سامان نظر آئیں۔ افسوس اس شہر کی تاریخ کی طرف بہت کم توجہ کی گئی۔ جس طرح حافظ ابو القاسم علی بن حسن عساکری نے شہر دمشق کی تاریخ اسّی جلدوں میں لکھی تھی اور جس طرح ابوبکر خطیب بغدادی نے شہر بغداد کی تاریخ دس جلدوں میں لکھی تھی، اُسی طرح ضرورت تھی کہ قدمائے ہندوستان میں سے کوئی حوصلہ مند اور واقف کار عالم دہلی کی بھی ایک مکمل تاریخ لکھتا۔ مذکورہ علمائے اسلام نے اپنی تاریخیں اس طرح مکمل کی ہیں کہ جس شہر کی تاریخ لکھی ہے وہاں کے بادشاہوں، امرا اور فضلا اور تمام نامور علما کے تفصیلی حالات، شہر کے تغیرات، اس کی ترقیاں اور اس کے تنزل، وہاں کی مشہور عمارتوں، محلوں اور مسجدوں غرض تمام باتوں کو حتّی الامکان قلمبند کر دیا ہے۔ خاص دہلی کی تاریخ اول تو کوئی لکھی گئی ہی نہیں۔ اگر کچھ پتا چلتا ہے تو اُن تاریخوں سے جو عام پولیٹکل حالت ہند کے متعلق لکھی گئی ہیں۔

صرف ایک منفرد کوشش آنریبل سر سید احمد خان بہادر نے البتہ کی کہ اپنی کتاب “آثار الصنادید” میں انہوں نے دہلی کی کل عمارتوں کا حال لکھا ہے اور جہاں تک ممکن ہوا ہے اُن عمارتوں کی تاریخ بھی تصریح کے ساتھ بتانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ کسی متفرّد کوشش کو کبھی پوری کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی۔ آثار الصنادید کی عبارت بتا رہی ہے کہ سید صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کو تحقیق و تفتیش سے کم تعلق ہے، بلکہ انہوں نے اپنے خیالات کو عام مذاق کی سطح پر قائم کیا ہے اور عام لوگوں کی بتائی ہوئی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔ افسوس سید صاحب کو شاید اتنی مہلت نہ ملی، ورنہ اگر وہ ہندوستان کی تمام تاریخوں کے ورق اُلٹ کے اور خوب تدقیق و تنقید سے کام لے کے اپنی بے مثل کتاب کا دوسرا ایڈیشن خود ہی مرتب کرتے تو وہ کتاب لاجواب اور بے مثل ہو جاتی۔ مگر سچ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا، یہ بھی غنیمت بلکہ بہت ہے۔ غریب دہلی ایسی حسرت نصیب ہے کہ اب تو اس کے زوال کا زمانہ ہے، جب وہ عروج پر تھی اس وقت کا اگر خیال کیجیے تو کوئی اتنا پوچھنے والا بھی نہ تھا۔

آج دہلی میں جائیے، اُس کے اطراف میں پہریے، ٹوٹی اور قدامت کی مار کھائی ہوئی عمارتوں کو دیکھیے تو حسرت نصیبی اور بے کسی کا عجب عالمِ خموشاں نظر آئے گا۔ہر عمارت جو کچھ زبان حال سے کہہ رہی ہے، اگر اس کی طرف دل کے کان نہ لگائے جائیں توبھی ہم اپنے قیاسی اجتہادوں سے کام لے کے اُس وقت کی تصویر کا بارونق خاکہ اپنے سامنے قائم کر سکتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ اُس عمارت پر اگلے دنوں کیا رونق ہو گی اور وہ کیسی فرحت و انبساط کی جگہ ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تاریخوں کے ورق اُلٹ کے دہلی کی گذشتہ رونق دکھائیں اور اپنے ہم وطنوں کو ایک پراثر افسانہ سُنا کے متاثر کریں۔ لیکن افسوس ہے ہمیں اُن کتابوں اور تاریخوں سے اس امر میں کسی قسم کی مدد نہیں مل سکتی جو خاص ہندوستان کے مسلمان مورّخین نے لکھی ہیں۔ ہاں اگر ہم غیر مقامات کے آنے والوں اور اُس عہد میں دہلی کا تماشا دیکھ کے اپنے ہم وطنوں سے بیان کرنے والوں کی طرف توجہ کریں تو غالباً زیادہ لطف انگیز ہوگا۔ مغلیہ دور کے ابتدائی اور وسطی عہدوں میں بعض یوروپین بھی یہاں آئے تھے جنہوں نے اپنے سفر ناموں میں ہندوستان کی اُس اگلی سوسائٹی کی تصویریں دکھائی ہیں۔ ایسے سفر ناموں کواہل ملک بکثرت دیکھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر برنی آر کا سفر نامہ خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر پٹیالہ کی کوشش سے آج اہل ملک کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم ابن بطوطہ کی طرف توجہ کرتے ہیں جو تیمور بانی خاندان مغلیہ سے بھی پہلے ہندوستان میں آیا تھا۔ عام خیال ہو گا اور جہاں تک ہم نے سنا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے کہ دہلی کی زیادہ شان و شوکت اور آبادی کی رونق شاہجہاں کے بعد سے ہوئی۔ موجودہ عمارتیں جو قدامت کی یادگار کی حیثیت سے ہمارے زمانے تک باقی رہی ہیں، اُن میں سے جو زیادہ قابل قدر اور موجب استعجاب ہیں، ان کا بانی شاہجہاں ہی تھا۔ لیکن ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیاس غلط ہے۔

دہلی کی رونق خاندان مغلیہ سے پہلے ہی بہت ترقی پر تھی اور یہاں کا دربار اُن دنوں بڑا با جاہ و جلال دربار خیال کیا جاتا تھا۔ صرف گویا اتنے دعوی کے ثبوت کے لیے ہم وہ حالات پبلک کے سامنے پیش کرتے ہیں جو ابن بطوطہ نے دہلی میں آ کے اپنے چشم دید بیان کیے ہیں۔

٧٣٦ ہجری میں ابن بطوطہ کو شہر دہلی کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔ بیان کرتا ہے کہ قصبہ پالم جو ایک بہت بڑے معزز اور مقرب و مشیر سلطان رئیس سید شریف ناصر الدین مطہری کی جاگیر میں تھا، وہاں سے روانہ ہو کے دوسرے روز میں خاص دار الخلافت دہلی میں داخل ہوا۔ یہ ایک بڑا عظیم الشان شہر ہے۔ آبادی بہت زیادہ ہے، مضبوطی اور خوبصورتی دونوں اعتبار سے بے مثل اور لاجواب ہے۔ جیسی مضبوط شہر پناہ دہلی کے گرد بنی ہوئی ہے ویسی عمدہ اور مستحکم شہر پناہ دنیا کے کسی شہر میں نہیں ہے۔ تمام بلاد ہندوستان ہی پر نہیں، بلکہ ساری مشرقی دنیائے اسلام کے شہروں پر دہلی کو ترجیح ہے۔ فی الحال دہلی چار مختلف شہروں پر تقسیم ہے جو قریب قریب اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ وہ حصہ جو خاص دہلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ تو وہ ٹکڑا ہے جو قدیم شہر ہے اور ہندوؤں کا آباد کیا ہوا ہے جس کو ٥٨٤ ہجری میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا (اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ دہلی کو مسلمانوں کے قبضہ میں آئے صرف ١٥٢ برس ہی گذرے تھے جبکہ ابن بطوطہ ہندوستان میں آیا ہے۔ اب اس کے بعد ہم اندازہ کر سکیں گے کہ اس ڈیڑھ سو برس کی مدت میں مسلمان فرمانرواؤں نے دہلی میں کیسی عمارتیں بنائیں اور اُس کو کیسی رونق دی تھی)۔ دوسرا حصہ شہر جسے سیری کہتے ہیں، وہی دار الخلافت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جو پیشتر سلطان علاء الدین اور اُس کے بیٹے قطب الدین کا مستقر خلافت تھا۔ یہ شہر سلطانِ وقت نے خلیفہ مستنصر باللہ عباسی کے نواسے غیاث الدین کو دے دیاتھا۔

تیسرا شہر تغلق آباد کہلاتا ہے جس کو سلطان محمد تغلق جس کے عہد میں مجھے ہندوستان کی زیارت نصیب ہوئی اُس کے والد مرحوم سلطان غیاث الدین تغلق نے آباد کیا تھا۔ اس کے آباد ہونے کی ابن بطوطہ نے عجیب وجہ بیان کی ہے، وہ کہتا ہے کہ غیاث الدین تخت نشین ہونے کے پہلے جب سلطان قطب الدین کے امرائے دربار میں تھا تو اتفاقاً ایک روز سلطان قطب الدین کا ایک خوش سواد اور مناسب مقام پر گذر ہوا۔ غیاث الدین نے بادشاہ کی خدمت میں دست بستہ عرض کیا کہ “خداوند عالم! اگر اس مقام پر شاہی قصر اور شہر آباد ہوتا تو نہایت مناسب تھا۔” قطب الدین نے استہزاءً بنانے کے لہجے میں کہا “اچھا جب تم بادشاہ ہونا تو ایسا ہی کرنا۔” خدا کی قدرت کہ قطب الدین کے بعد تاج شاہی غیاث الدین ہی کے سر پر رکھا گیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ “اب خدا نے میرے ولی نعمت کی آرزو پوری کر دی تو مجھے بھی اُس کا قول پورا کرنا چاہیے”۔ لہذا اس شہر کی بنیاد ڈالی اور نہایت رفعت و شان سے آباد کیا۔

اور چوتھا شہر جہاں پناہ کے نام سے نامزد ہے اور سلطان عصر سلطان محمد تغلق اس شہر میں رہتا ہے۔ یہ بڑا اولوالعزم بادشاہ ہے۔ اُس نے ارادہ کیا تھا کہ ایک اتنی بڑی شہر پناہ بنائے کہ شہر دہلی کے چاروں حصے اس کے اندر آ جائیں، بلکہ یہ کام شروع بھی کر دیا تھا۔ مگر بوجہ زیادتی مصارف کے بغیر تکمیل کو پہونچے چھوڑ دیا گیا۔ قدیم شہر پناہ دہلی جو عرصہ سے قائم ہے وہ ایسی مستحکم اور مضبوط ہے کہ اُس کے برابر مضبوط اور ویسی عجیب و غریب شہر پناہ دنیا کے کسی شہر کے گرد نہ ہو گی۔ دیوار کا آثار گیارہ گز تک کا دیا گیا ہے اور سارے شہر کے گرد دیوار اتنی ہی چوڑی ہے۔ جابجا اس میں مکانات بنے ہوئے ہیں جن میں محافظین شہر اوراکثر اہل پولیس رہا کرتے ہیں۔ اس شہر پناہ کے اندر جابجا کھتّے ہیں جن میں غلہ بھرا ہوا ہے اور نہایت حفاظت سے رہا کرتا ہے اور بعض جگہ اس شہر پناہ میں اسلحہ اور جنگی ضرورتوں کا سامان فراہم رہتا ہے۔ لیکن غلہ جس حفاظت سے ان کھتّوں میں رہتا ہے اس پر مجھے بھی حیرت ہے۔ مدتوں رہتا ہے، نہ کسی قسم کا تغیر ہوتا ہے اور نہ اُس میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ان کھتوں سے چاول نکالے گئے تھے، اُن کو خود میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ ہاں رنگ میں تو میلا پن آ گیا تھا مگر مزے میں ذرا فرق نہ تھا۔ ان کھتوں میں جو کچھ غلہ تھا سب سلطان بلبن کا فراہم کیا ہوا تھا جس کو نوے برس کا زمانہ گذر چکا تھا۔ اس شہر پناہ پر دو سوار نہایت آسانی سے دوڑ سکتے ہیں۔ دیوار نیچے سے چوڑی ہے اور اوپر سواروں کے دوڑنے کے قابل وسعت چھوڑ کے دیوار کا ایک حلقہ قائم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے سوار شہر کی طرف سے تو نظر آ سکتے ہیں، لیکن باہر سے کوئی انہیں نہیں دیکھ سکتا۔ نیچے کا حصے پتھر کا بنا ہوا ہے اور اوپر کی دیوار اینٹ اور چونے سے قائم کی گئی ہے۔ بلندی پر پرقریب قریب برابر برج چلے گئے ہیں جو نہایت خوشنما اور بہت ہی بکار آمد ہیں۔

شہر پناہ کے ٢٨ دروازے ہیں۔ سب سے بڑا دروازہ بدایوں دروازہ ہے۔ باقی ایک منڈی دروازہ، ایک گل دروازہ، شاہ دروازہ، غزنی دروازہ اور پنجابی دروازہ ہے، جس کے باہر دہلی کا قبرستان واقع ہے ۔ اکثر قبروں پر گنبد بنے ہیں اور اگر گنبد نہیں تو ہر قبر کے پاس ایک طاق ضرور بنا ہوا ہے۔ اس قبرستان میں جابجا پھولدار درخت لگے ہوئے ہیں۔ کہیں شبّو کھلی ہے، کہیں رائے بیل دوڑی ہوئی ہے۔ کسی طرف چنبیلی ہے اور کسی جگہ بیلہ لگا ہے جو ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور سارا قبرستان مہکا کرتا ہے۔

دہلی کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ اُس کے آگے بہت بڑا اور وسیع صحن ہے۔ دیواریں، چھت اور فرش جس چیز کو دیکھیے سنگ مرمر کی ہے، جس کو عجب صنعت سے ہموار کیا ہے اور سیسہ پگھلا پگھلا کے ان پتھروں کی جُڑائی کی گئی ہے جس سے زیادہ مضبوط جوڑ اور کسی طرح بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ لکڑی کا کہیں نام ہی نہیں۔ اس مسجد پر پتھر کے تیرہ گنبد ہیں۔ ممبر بھی پتھر کا ہے۔ چاروں طرف عمارت ہے اور درمیان میں ایک عجیب و غریب ستون جس کی نسبت اس وقت تک یہ نہیں دریافت ہو سکا کہ کس دھات کا بنا ہوا ہے۔ بعض محققین ہندوستان نے مجھ سے بیان کیا کہ سات قسم کی دھاتوں کو ترکیب دے کے ایک نیا دھات بنایا جاتا ہے جسے یہاں فارسی زبان میں ہفت جوش کہتے ہیں۔ یہ ستون بھی اُسی دھات سے بنایا گیا ہے۔ اس ستون کے تھوڑے حصے پر جلا دے دی گئی ہے، جو نہایت ہی آبداری کے ساتھ ضو اور شعاعیں ڈالتا ہے اور مضبوط اس قدر ہے کہ اُس پر لوہا بالکل اثر نہیں کر سکتا۔ کوئی آلہ اُس کو نہیں کاٹ سکتا۔ یہ ستون تیس گز لمبا ہے اور اس کے دور کو میں نے اپنے عمامہ سے ناپا تھا، جس قدر حصہ اس کی لپیٹ میں آ گیا وہ آٹھ گز تھا۔ مسجد کے مشرقی دروازے پر تانبے کے دو بڑے بڑے بت پڑےہوئے ہیں جو پتھریلی زمین پر جم گئے ہیں۔

جس جگہ یہ مسجد بنی ہے وہاں قدیم بت خانہ تھا۔ مسلمانوں نے فتح کرنے کے بعد اسے مسجد بنا لیا۔ مسجد کے شمالی حصہ صحن میں ایک اتنا بڑا مینار ہے جس کی نظیر سے تمام بلادِ اسلام خالی ہیں۔ یہ عجیب و غریب مینار (جسے اب لوگ قطب صاحب کا لاٹ کہتے ہیں) بخلاف ساری مسجد کے سنگِ سرخ سے بنایا گیا ہے۔ مسجد کے اور تمام حصوں میں سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مینار کے پتھر میں یہ بھی لطف پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پتھر پر کھود کر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ بلندی بہت زیادہ ہے۔ چوٹی سنگ مرمر کی ہے اور اُس کے حاشیوں اور کناروں پر طلاکاری ہے۔ اُس کی بلندی پر چڑھنے کے لیے راستہ اتنا وسیع رکھا گیا ہے کہ ہاتھی بخوبی چڑھ سکتا ہے، بلکہ ایک معتبر و مستند شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں یہ مینار بن رہا تھا، اُن دنوں میں نے اپنی آنکھ سے پتھر لاد لاد کے لے جانے والے ہاتھیوں کو اُس پر چڑھتے دیکھا تھا۔ اس مینار کو سلطان مُعز الدین بن ناصر الدین بن سلطان غیاث الدین بلبن نے تعمیر کیا تھا۔ اُس کے بعد سلطان قطب الدین نے ارادہ کیا کہ مغربی حصہ صحن میں بھی ایک مینار اُس مینار سے زیادہ بلند اور بڑا تعمیر کرائے۔ اس پر عمل شروع کر دیا گیا۔ ایک ثلث حصہ مینار کا بن بھی گیا تھا لیکن سلطان قطب الدین کی عمر نے وفا نہ کی اور قبل تکمیل کے مر گیا۔ پھر سلطان محمد نے ارادہ کیا کہ اُس مینار کو پورا کر دے مگر پھر خدا جانے کس وجہ سے منحوس خیال کر کے چھوڑ دیا۔ اس کی وسعت اتنی رکھی گئی تھی کہ اس میں برابر ایک ساتھ تین تین ہاتھی چڑھ سکتے تھے اور یہ ثلث جس قدر بنا ہے، بلندی میں اُس پہلے مینار کے برابر ہے یعنی اگر تکمیل کو پہنچتا تو اُس کا تگنا بلند ہو جاتا۔ ایک مرتبہ میں اس کی بلندی پر چڑھا تھا ، مجھے وہاں سے تمام بڑے بڑے مکانات شہر کے نظر آئے اور شہر پناہ کی دیواریں باوجود اپنی بلندی اور رفعت کے وہاں سے نہایت ہی پست اور ذرا ذرا سی معلوم ہوتی تھیں؛ اور اچھے خاصے توانا و تندرست اور قوی ہیکل آدمی وہاں سے مجھے چھوٹے چھوٹے بچوں کے برابر معلوم ہوتے تھے۔ اس مینار کی بلندی جس قدر ہے، اُس کی جانب کسی کا خیال بھی نہیں جاتا ہے۔ اس لیے کہ اُس کا پھیلاؤ اور دور اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اُسے دیکھ کے اُتنا بلند نہیں تصور کر سکتا ہے۔

سلطان قطب الدین نے ارادہ کیا تھا کہ شہر کے حصہ سیری میں جسے دار الخلافت کہتے ہیں ایک اور جامع مسجد تعمیر کرے جو رفعت و شان میں کُل گذشتہ عمارتوں سے بڑھ کے ہو۔ مگر سوا سامنے کی دیوار اور محرابوں کے کچھ بن نہ سکا۔ اس میں چار قسم کے پتھر لگائے گئے تھے: سنگ مرمر، سنگ موسی، سنگ سرخ اور سنگ سبز۔ اگر یہ مسجد پوری ہو جاتی تو اس میں شک نہیں کہ ساری دنیا میں اُس کے برابر کوئی عمارت نہ ہوتی۔ سلطان محمد نے ارادہ کیا کہ اس کو بھی تکمیل کو پہونچائے لیکن تمام کاریگروں کو بلوا کے صرف مزدوری کا حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ پینتیس لاکھ روپیہ فقط مزدوری میں صرف ہو گا۔ اس پر قیاس کر کے تمام مصارف کو بہت زیادہ تصور کر کے سلطان محمد اپنے ارادے سے دست بردار ہو گیا۔ مگر مجھ سے خاص سلطان کے بعض مقربین نے بیان کیا کہ بدشگونی کے خیال سے اُس نے یہ ارادہ فسخ کر دیا اور بدشگونی یہ کہ سلطان قطب الدین اصل بانی قبل تکمیل کے مار ڈالا گیا تھا۔

شہر دہلی کے باہر ایک بہت بڑا حوض ہے جو سلطان شمس الدین التمش کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔ اہل شہر اُسی کا پانی پیتے ہیں۔ یہ حوض عید گاہ کے قریب ہے۔ اس حوض میں اور کہیں سے پانی نہیں آتا ہے، بلکہ صرف برساتی پانی جمع ہو جایا کرتا ہے۔ اس حوض کا طول دو میل کا ہے اور عرض ایک میل کا اور اس کے مغربی کنارے پر جدھر عید گاہ ہے، پتھر کے زینے بنے ہوئے ہیں اور جابجا دکانیں بھی ہیں جو تلے اوپر بنتی چلی گئی ہیں۔ اور ہر دکان کے نیچے زینے بنے ہیں جو پانی کے اندر تک اُترتے چلے گئے ہیں۔ ہر دکان کے پہلو میں ایک برج بنا ہوا ہے جس میں سیر کرنے والوں یا تفریح کو آ نکلنے والوں کے لیے نہایت عمدہ گنجائش ہے۔ حوض کے عین درمیان میں جہاں سے ہر طرف برابر بُعد ہے، ایک بڑا برج بنا ہوا ہے جس کی عمارت میں منقش پتھر لگایا گیا ہے اور اُس کے دو درجہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ علاوہ بریں وہاں تک پہونچنے کا راستہ بھی ہے۔ جب پانی زیادہ ہو جاتا ہے اُن دنوں راستہ بند ہو جاتا ہے اور لوگ صرف کشتیوں کے ذریعے سے جا سکتے ہیں۔ اس برج کے اندر مسجد ہے اور اکثر اوقات برج اور مسجد میں فقرا و متوکلین سکونت پذیر ہیں۔ جب پانی خشک ہو جاتا ہے اور جابجا سے حوض کی زمین کھل جاتی ہے تو اس میں اکثر گنے، کھیرے اور ککڑی اور تربوز اور خوبوزے کی زراعت ہوتی ہے۔

اس حوض کے علاوہ دار الخلافت اور قدیم دہلی کے درمیان میں ایک اور حوض ہے جو مذکورہ حوض سے بڑا ہے اور اُس کے گرد چالیس برج نہایت خوشنمائی اور عظمت و شان کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ اس حوض کے گرد ارباب نشاط کے مکانات بنے ہیں۔ یہیں اُن کا ایک بہت ہی بڑا بازار ہے جس میں ایک جامع مسجد اور بہت سے چھوٹی چھوٹی مسجدیں ہیں۔ وہاں کے معتبر لوگوں کی زبانی میں نے سُنا کہ جو طوائف اور رنڈیاں اس حلقہ میں رہتی ہیں، ماہ مبارک رمضان میں ان مسجدوں میں جمع ہو کے تراویح پڑھا کرتی ہیں اور بہت سے امام معین ہیں جو امامت کیا کرتے ہیں۔ علی ہذا القیاس ڈوم ڈھاری جن کو اُن سے قرابت کا علاقہ ہے، ادائے تراویح میں سرگرمی دکھاتے ہیں؛ بلکہ ایک مرتبہ امیر سیف الدین کے یہاں میں نے ایک تقریب میں خود دیکھا کہ ان لوگوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک جانماز دی گئی، جس کو اُس نے اپنے گھٹنے کے نیچے رکھ لیا اور جیسے ہی اذان کی آواز آئی، اُٹھ کے وضو کیا اور نماز میں مشغول ہو گیا۔

دہلی میں اکثر بزرگان دین کے مزار ہیں، جن کی زیارت نہایت اعتقاد اور سرگرمی سے کی جاتی ہے، خصوص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی۔ فقیہ نور الدین کرلانی اور فقیہ علاء الدین کرمانی کے روضے مرجع عام ہو رہے ہیں۔

علما بھی بڑے بڑے معتبر اور مستند موجود ہیں جن میں سے ایک شیخ محمود کیا ہیں۔ ان کی نسبت لوگوں کو خیال ہے کہ اُنہیں قدرت کی جانب سے دست غیب ہے۔ اس لیے کہ ظاہر میں کوئی آمدنی نہیں اور فیاضی کا یہ عالم ہے کہ ہزارہا روپیہ راہ خدا میں دیتے رہتے ہیں۔ شب و روز مہمانداری اور خدمت فقرا ہی میں گذرتی ہے۔ اور ایک عالم شیخ علاء الدین نیلی ہیں، یہ ہر جمعہ کو وعظ فرمایا کرتے ہیں۔اُن کے وعظ میں یہ اثر ہے کہ کوئی جمعہ اس سے خالی نہیں جاتا کہ لوگ آ کے اُن کے ہاتھ پر کفر و شرک سے توبہ نہ کرتے ہوں اور بعضوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اُن کی زبان سے مؤثر الفاظ سُن کے وجد میں آ جاتے ہیں اور از خود رفتہ ہو جاتے ہیں۔

اس قدر حال بیان کر کے ابن بطوطہ نے دہلی کی تاریخ بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ اسلام اس شہر میں کیونکر اور کس عہد میں آیا۔ اور اُس وقت سے اس وقت تک کتنے بادشاہ گذرے اور آخر میں آ کے کہتا ہے کہ موجودہ فرماں روا جس کے عہد میں آنے کی مجھے عزت حاصل ہوئی وہ سلطان محمد شاہ ہے۔ اپنے باپ سلطان غیاث الدین تغلق کے مرنے کے بعد بغیر کسی جھگڑے اور خرخشے کے اور بے اس کے کہ کوئی مزاحمت کرے، وارث تاج و تخت ہوا۔ ایام ولی عہدی میں شاہزادہ جو نا کہلاتا تھا، تخت پر بیٹھ کے سلطان محمد نام اور ابو المجاہد کنیت سے اپنے تئیں مشہور کیا۔

عجیب جامع الاضداد طبیعت کا بادشاہ ہے۔ اُس کے در دولت پر جب گذریے دو باتوں سے خالی نہ پائیے گا۔ کوئی نہ کوئی فقیر و محتاج اپنی کامیابی پر دعائیں ضرور دے رہا ہو گا اور کوئی نہ کوئی گنہگار ضرور قتل ہو رہا ہو گا۔ سلطان جتنا بڑا رحم دل ہے، اُتنا ہی بڑا سخت گیر ہے۔ اُس کے نام کے ساتھ ان دونوں اوصاف کو شہرت ہو گئی ہے اور اسی بنا پر جس طرح دور دور کے محتاج اور فقرا امیدوار ہو کے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیں، اسی طرح چاہے دہلی سے کتنی ہی دور ہو، مگر جہاں کسی بدمعاش اور ظالم شخص کے سامنے سلطان محمد تغلق کا نام لے دیجیے، فوراً کانپ اُٹھتا ہے۔ مگر لوگوں کو یہ سن کے حیرت ہو گی کہ سلطان ہند باوجود اتنی بڑی سخت گیری اور انتقام پسندی کے انتہا سے زیادہ بے نفس، خلیق اور منکسر المزاج شخص ہے؛ خصوص امور دینی میں۔ دین کا نہایت ادب کرتا ہے، نماز کے بارے میں بڑی احتیاط اور تاکید ہے اور تارک الصلوۃ کو ضرور اس کے دینی جرم پر سزا دیتا ہے۔ لیکن باوجود ان سخت گیریوں کے میرا فیصلہ یہی ہے کہ رحم و فیاضی اُس کے مزاج میں بہ نسبت جوش انتقام کے بڑھی ہوئی ہے۔ اس کے افعال و حرکات کے متعلق میں ایسے ایسے واقعات نقل کروں گا جن کو مؤرخین نے باوجود کثرت جستجو کے نہ شاہان سلف میں سے کسی میں پایا ہو گا اور نہ ہی کسی موجودہ تاجدار میں۔

اس کے بعد ابن بطوطہ اپنے قول کی تصدیق کرانے اور اپنی سچائی پر زور دینے کے لیے لکھتا ہے کہ “میں اللہ جل شانہ، ملائکہ مقربین اور انبیائے معصوم کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ سلطان محمد تغلق کی خرق عادت کے درجہ کو پہونچی ہوئی فیاضیاں جو کچھ میں نے بیان کی ہیں، سب کو نہایت تحقیق سے دریافت کر کے اور صحت پر پورا یقین کر کے لکھا ہے۔ اگرچہ جانتا ہوں کہ بعض لوگ ان باتوں کو محال خیال کریں گے، لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کو گویا اپنی آنکھ سے دیکھ کے اور خوب تحقیق کر کے لکھا ہے اور یہ تمام باتیں ان دونوں کل بلادِ مشرق میں اس طرح مشہور ہیں کہ ہر ہر بچہ جانتا ہے”۔

دہلی اور اُس کا اگلا دربار

[edit]

بادشاہ کا دروازہ (جسے ہندوستان کے پچھلے عہد میں درِ دولت اور قسطنطنیہ میں باب عالی کہتے ہیں) دارِ سرا کہلاتا ہے۔ سرا پردۂ شاہی کے بہت سے دروازے ہیں۔ پہلے دروازے پر بہت سے لوگ مامور ہیں جو ہر وقت پہرہ دیا کرتے ہیں اور اُنہیں میں باجا بجانے والے، شہنائی اور طبل و قرنا بجانے والے بھی موجود رہتے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ جہاں کوئی بڑا امیر اور صاحب رتبہ اور ذی اختیار رئیس آیا بس سب کے سب باجا بجانے لگے اور فوراً مبارک باد و دعائے دولت کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور باجوں ہی کی لے میں اُس رئیس کا خیر مقدم ادا کیا جاتا ہے، اور باجوں سے صاف آواز آتی ہے کہ “فلاں رئیس آیا فلاں رئیس آیا”۔ دوسرے اور تیسرے دروازوں پر بھی یہی سامان رہتا ہے اور وہاں بھی اسی طرح نغمہ و سرود میں رؤسا کا خیرمقدم ادا کیا جاتا ہے۔

باب اول کے متصل کچھ دکانیں سی بنی ہوئی ہیں جن میں ہر وقت جلاد اور مجرم کی جان لینے والے فرشتہائے موت بیٹھے رہتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، عادت ہے کہ جب وہاں جائیے اُن لوگوں کو کسی نہ کسی کے قتل میں مصروف پائیے گا، بس بادشاہ کے حکم کی دیر ہے؛ ادھر کسی کے بارے میں سزائے موت کا حکم ہوا اور وہ قتل کے لیے آمادہ ہوئے۔ مجرمین دروازۂ شاہی ہی پر قتل کیے جاتے ہیں۔ پہلے دروازے سے دوسرے دروازے تک ایک بہت بڑی دہلیز بنی ہوئی ہے جس میں کوٹھریاں بنتی چلی گئی ہیں۔ اُن کوٹھریوں میں نگہبان اور محافظین یعنی گارد کے سپاہی باری باری موجود رہتے ہیں اور بڑی ہوشیاری سے پہرا دیا کرتے ہیں۔ دوسرے پھاٹک کے اندر بھی یہی گارد والے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد تیسرے دروازے تک جو کوٹھریاں ہیں، اُن میں سب نقیبوں کا سردار جو عرض بیگی کی خدمت سے سرفراز ہے بڑے تزک اور ٹھاٹ سے موجود رہا کرتا ہے۔ اُس کے آگے ایک سونے کا عصا رکھا رہتا ہے اور اکثر یہ عصا اُس کے ہاتھ میں نظر آیا کرتا ہے۔ اس کے سر پر سونے کی مرصّع نہایت عمدہ ٹوپی ہوتی ہے جس پر کلغی بھی ضرور نصب رہتی ہے۔ اس کے دونوں طرف بہت سے نقیب دست بستہ ادب سے کھڑے ہوتے ہیں۔ اُن سب کی ٹوپیاں بھی ویسی ہی طلاکار اور بھاری ہوتی ہیں۔ سب کی کمروں پر پٹکے بندھے ہوئے ہیں اور ہاتھوں میں کوڑے ہیں جن کی موٹھیں سونے یا چاندی کی ہیں۔ اور اس دوسرے دروازے سے نکل کے ایک بہت بڑے ہال میں پہونچتا ہے جس میں بکثرت آدمی بیٹھے رہتے ہیں۔

تیسرے دروازے پر نام لکھ لینے والے رہا کرتے ہیں اور اُن لوگوں کا فرض ہے کہ سوا اُن لوگوں کے جن کو خاص بہ حکم شاہی اجازت ہو اور کسی کو اندر نہ جانے دیں۔ اُن لوگوں کے پاس تمام اُن رؤسا کے نام لکھے ہوئے ہیں جن کو اندر جانے کی اجازت ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ہر مستحق کَے آدمیوں اور ہمراہیوں کے لے جانے کا مجاز ہے۔ لہذا اس شمار سے زیادہ ہمراہیوں کو وہ نہیں لے جانے دیتے ہیں اور جب کوئی شخص اس دروازے سے گذرتا ہے، فوراً لوگ لکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں وقت حضوری میں گیا۔ اور بعد نماز عشا کے خود سلطان روزانہ فہرست کو اپنی آنکھ سے ملاحظہ کر لیا کرتا ہے۔ علاوہ آمد و رفت کے اور جو واقعات در دولت پر دن بھر پیش آتے ہیں، اُن کو یہاں کے محرر بطور رپورٹ کے لکھتے جاتے ہیں۔ اُن رپورٹوں کا پیش کرنا جن شاہزادوں کے سپرد ہے، وہی شاہزادے رپورٹوں کو محرروں سے لے کے ملاحظہ شاہی میں لے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ خدمت باری باری شاہزادوں کے سپرد ہے۔

درِ دولت کا ایک یہ بھی دستور ہے کہ جو شخص باب بادشاہی میں تین دن یا اس سے زیادہ غیر حاضر رہے وہ پھر بغیر اجازت شاہی کے اندر نہیں آنے پاتا اور جب وہ پھر حاضری کا ارادہ کرے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنا عذر بارگاہ شاہی میں پیش کرے کہ فلاں ضرورت یا اس مرض کی وجہ سے وہ غیر حاضر رہا۔ اور یہ بھی دستور ہے کہ جب وہ عذر پیش کرے تو بعد قبولیت عذر کے بادشاہ کی طرف سے اُس کو حسب رواج و حیثیت کوئی نہ کوئی تحفہ مرحمت ہو اور یہی دستور مسافروں اور بادشاہ کے دربار میں باہر سے آنے والوں کے ساتھ بھی معین ہے۔ یہ ہدایا و تحف بھی ہر حیثیت کے مناسب نامزد کر دیے گئے۔ مثلاً فقہا کو قرآن مجید نذر دیا جاتا ہے، فقرا کو جانماز، تسبیح اور مسواک وغیرہ دی جاتی ہے، روسا اور اُمرا کو گھوڑے، اونٹ اور اسلحہ دیے جاتے ہیں۔

تیسرے پھاٹک سے نکل کے انسان اُس بڑے عالیشان محل میں پہونچتا ہے جسے ہزار ستون کہتے ہیں۔ اس کے ستون لکڑی کے ہیں جن پر روغن پھرا ہوا ہے اور چھت بھی لکڑی کی ہے۔ مگر اُس پر ایسی عجیب و غریب صنّاعی سے بیل بوٹے اور نقش و نگار بنائے گئے ہیں کہ انسان کو حیرت ہوجاتی ہے۔ اس محل میں لوگ آ کے ادب سے بیٹھتے ہیں اور اس میں خود سلطان بھی جلوہ افروز ہوتا ہے۔ یہ محل دیوان عام بھی کہلاتا ہے۔ اس دیوان عام میں سلطان اکثر بعد عصر آ کے بیٹھتا ہے۔ خاص سلطان کی نشست کے لیے وہاں یہ انتظام رہتا ہے کہ ایک مسطح چبوترے پر نہایت نفیس اور برّاق فرش اور فرش پر ایک عمدہ تخت رہتا ہے۔ تخت کی پشت کے جانب گاؤ تکیہ لگا ہوا ہے اور داہنے بائیں دونوں پہلوؤں پر یہی ایک ایک تکیہ رہتا ہے، اور بیٹھنے کی یہ وضع ہوتی ہے جس طرح انسان نماز میں تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھتا ہے اور یہی وضع تخت نشینی میں کل شاہان ہند کی ہے۔ اور جب بادشاہ بیٹھتا ہے تو اس کے آگے وزیر اعظم دست بستہ کھڑا ہوتا ہے اور اُس کے پیچھے اہل قلم و اراکین دفتر شاہی صف باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ اہل قلم کے پیچھے حاجبین دربار شاہی ٹھہرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو ہر آنے والے کو سونچ سمجھ کے لاتے ہیں اور اُس کی حیثیت کے مناسب اس کی جگہ پر لا کے اسے کھڑا کر دیتے ہیں۔ اُن حاجبوں کا سردار اعظم ہمیشہ دربار دہلی میں ایک معزز اور معتمد علیہ شاہی رہتا ہے۔ سلطان محمد تغلق کے عہد میں یہ خدمت خاص سلطان کے بھتیجے فیروز ملک کےسپرد ہے۔ یہ اپنے تمام ماتحت حاجبوں کے آگے اور خاص سلطان کے قریب رہتا ہے، اُس کے بعد اُس کا ماتحت حاجب رہتا ہے جسے حاجب خاص کہتے ہیں، پھر نائب حاجب خاص جو داروغہ محل بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ اور اس حجاب اور نقیبوں کے گروہ میں تقریباً سو آدمی ہیں جو ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

جس وقت سلطان بیٹھتا ہے سب کے سب ایک ساتھ شور کر کے کہتے ہیں “بسم اللہ الرحمن الرحیم” اور ملک الکبیر یعنی حاجبوں اور نقیبوں کا سردار مورچھل ہاتھ میں لیے رہتا ہے اور برابر جھلا کرتا ہے۔ ان مذکورہ لوگوں کے بعد سو مسلح جوان صف باندھے تخت کے داہنے جانب کھڑے رہتے ہیں اور سو بائیں جانب؛ اُن کے ہاتھوں میں کوڑے، تلواریں اور تیر کمان رہا کرتے ہیں۔ میمنہ اور میسرہ پر دیوان عام کے طول کے رخ پر قاضی القضات کھڑا ہوتا ہے اور اُس کے قریب ہی خطیب الخطبا یعنی سب خطیبوں کا سردار رہتا ہے۔ پھر تمام قاضی، پھر بڑے بڑے فقہا اور اُن کے بعد بڑے بڑے عمائد شہر اور مشائخ اور بادشاہ کے اعزا و اقربا اور داماد کھڑے رہا کرتے ہیں۔ پھر اُن لوگوں کی صف ہوتی ہے جو کبار اعزا کہلاتے ہیں، کبار اعزا سے مراد غربا و مساکین ہیں۔ پھر اہل فوج ہوتے ہیں۔ ان سب لوگوں کے پیچھے دونوں طرف تیس تیس کوتل گھوڑے نہایت اعلیٰ درجہ کے ساز و یراق سے آراستہ لا کے کھڑے کر دیے جاتے ہیں جن میں سے بعضے گھوڑے تو ایسے ہیں کہ خلافت اسلامیہ عباسیہ کی یادگار ہیں، یعنی اُن پر سیاہ اطلس کا چار جامہ وغیرہ ہوتا ہے اور اُس پر طلائی کام بنا ہوتا ہے اور بعضے کا سامان سفید طلا کار اطلس کا ہوتا ہے۔ یہ گھوڑے خاص سلطان کی سواری کے لیے مخصوص ہیں اور اُن پر سِوا خود بدولت کے اور کسی کی مجال نہیں کہ کبھی سوار ہو سکے۔ دربار میں یہ گھوڑے ٹھہرائے بھی ایسے مقام پر جاتے ہیں کہ سلطان کی نظر وہاں تک پہونچ سکتی ہو اور ہر لحظہ شاہنشاہ ہندکی نگاہ کے سامنے رہیں۔ ان گھوڑوں کے پیچھے پچاس ہاتھی کھڑے کیے جاتے ہیں جن پر ریشمی طلا کار جھولیں پڑی ہوتی ہیں اور جن کے دانتوں پر فولادی انیاں چڑھی ہوتی ہیں تاکہ مجرموں کو یہ ہاتھی بہ سہولت قتل کر سکیں۔ ہر ہاتھی کی گردن پر فیلبان کج بانک ہاتھ میں لیے سوار رہتا ہے اور اُن کی پیٹھ پر بہت بڑی بڑی عماریاں کسی رہتی ہیں جن میں سے ہر ایک میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ اُس پر بیس مسلح سپاہی بآسانی بیٹھ سکیں۔ ہاتھی کے قد و قامت کے لحاظ سے اس شمار میں کبھی کمی و زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ عماری کے چاروں کونوں پر چار عَلم بھی نصب ہوتے ہیں۔ یہ ہاتھی بڑی ہوشیاری اور محنت سے سدھائے گئے ہیں؛ چنانچہ جب چاہا جاتا ہے بادشاہ کے آگے جھک کے آستان بوسی کرتے ہیں اور بڑے ادب سے سر جھکاتے ہیں۔ ان میں سے بھی تیس ہاتھی تخت کے داہنے جانب اور تیس بائیں جانب ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُن ہاتھیوں میں سے جہاں کسی ہاتھی نے بڑھ کے سلطان کے آگے سر نیاز جھکا یا، حجاب اور نقیبوں کے گروہ سے صدائے “بسم اللہ الرحمن الرحیم” بلند ہوتی ہے۔

آداب شاہی میں یہ بھی داخل ہے کہ جتنے عہدہ دار یہاں آ کے ٹھہرنے کے مجاز ہیں، جب وہ دربار میں آ ئیں تو پہلے اُن کا فرض ہے کہ ایک مقام خاص پر جو تسلیم گاہ ہے، جا کے بادشاہ کو سلام کر لیں تو پھر اپنے مقام پر جا کے ٹھہریں۔ اُن لوگوں کے سلام کرنے کے وقت بھی “بسم اللہ” کا نعرہ صف حجاب سے بلند ہوتا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے کوئی راجا یا عہدہ دار شاہی سلام کرتا ہے تو اُس وقت نقیب بآواز بلند اُس کی طرف خطاب کر کے کہتے ہیں “ھداک اللہ”۔ اور سلطان کے غلام سب لوگوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں جن کی وضع سپاہیوں کی ہوتی ہے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ڈھال تلوار رہتی ہے۔ اس ترتیب کا یہ نتیجہ ہے کہ جو کوئی بادشاہ تک پہونچنا چاہے تو پہلے ان میں ہو کے گزرے گا، پھر حاجبوں میں ہو کے۔

جب کوئی باہر کا عامل دربار شاہی میں ہدیہ اور تحائف لا کے حاضر ہونا چاہتا ہے تو حاجب جو خدمت عرض بیگی کو سر انجام دیتے ہیں، اپنی اُس مذکورہ ترتیب سے یعنی سب کے آگے امیر حاجب، اُس کے پیچھے اُس کا نائب، پھر خاص حاجب، پھر اُس کا نائب، پھر داروغۂ محل، پھر اُس کا نائب۔ غرض اس گروہ کے تمام لوگ آگے پیچھے اپنی ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے تخت شاہی کی طرف بڑھتے ہیں اور تین مقاموں پر کھڑے ہو کے آداب شاہی بجا لا کے عرض کرتے ہیں کہ “فلاں شخص در دولت پر حاضر ہے اور آستان بوسی کی آرزو رکھتا ہے”۔ اگر بادشاہ نے اجازت دی تو اُس کو اس طور پر دربار میں لاتے ہیں کہ وہ جو تحفہ یا ہدیہ لایا ہے اُس کو لیے ہوئے لوگ آگے آگے چلتے ہیں تاکہ سلطان کی اُس پر نظر پڑے، وہ شخص قبل اس کے کہ سلطان کے قریب پہونچے دور ہی سے تین بار آداب شاہی بجا لاتا ہے۔ اُس کے بعد حاجبوں کے ٹھہرنے کے مقام پر پہونچتا ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا امیر اور معزز شخص ہوا تو امیر حاجب کے برابر کھڑا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اُس کے پیچھے ہی ٹھہر جاتا ہے۔ جب وہ اپنی جگہ پر ٹھہر گیا تو سلطان بذات خود اُس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہایت ہی خلق و محبت اور توجہ کے الفاظ میں باتیں کرتا ہے۔ اُس کے آنے پر مرحبا کہتا ہے اور اگر اُس کی عزت کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوا تو پاس بلا کےمصافحہ کرتا ہے اور کبھی کبھی معانقہ بھی کرتا ہے اور اُس کے ہدیوں کو منگوا کے اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اگر اسلحہ کپڑوں کے قسم سے کوئی چیز ہوئی تو ہاتھ میں اٹھا کے اُلٹ پلٹ کے بھی دیکھتا ہے اور خواہ مخواہ تحفوں کی تعریف کرتا ہے، صرف اس لیے کہ جس نے پیش کیا ہے، اُس کا دل خوش ہو جائے۔ اس کے بعد اُس کو خلعت مرحمت ہوتا ہے اور اُس کی حیثیت کے مناسب ایک رقم “سر دھونے” کے نام سے اُس کو نقد عطا ہوتی ہے۔ یہ ہندوستان کا دستور ہے کہ بادشاہ شرف حضوری حاصل کرنے والوں کو جو رقم مرحمت فرماتا ہے وہ “غسل سر” کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔

یہ تو اُن ہدیوں کا ذکر تھا جو باہر کے آنے والوں یا ابتداءً شرف حضوری حاصل کرنے والوں کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن وہ تحائف اور ہدایا جو عمائد شاہی یا خاص عمّال اور چکلہ داروں یا زمینداروں کی طرف سے پیش ہوتے ہیں اُن کا اور دستور ہے۔ امرا اور عمّال کا قاعدہ ہے کہ بہت دنوں تک مال و اسباب نذر شاہی کے لیے فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ہاتھی، گھوڑے، سونے چاندی کے برتن اور نیز سونے چاندی کی مسلّم اینٹیں۔ اسی قسم کی تمام چیزیں جب حضوری میں پیش ہوتی ہیں تو شاہی غلام اُن چیزوں کو لے کے بڑھتے ہیں۔ اگر ہاتھی ہوئے تو پہلے ہاتھی، پھر گھوڑے مع لوازم ساز و یراق، پھر اونٹ جن پر مال و اسباب لدا ہوتاہے، تدریجاً بادشاہ کی نظر سے گذر کے خزانہ شاہی میں داخل کیے جاتے ہیں۔

جب سلطان محمد تغلق دولت آباد سے واپس آتا تھا، اُن دنوں وزیر اعظم خواجہ جہاں نے ایک روز اپنے ہدایا ملاحظہ شاہی میں پیش کیے۔ بادشاہ نے شہر بیانہ کے باہر ایک مقام پر اُن ہدیوں کے ملاحظہ سے گذرانے جانے کا حکم دیا تھا۔ اُس موقع پر میں بھی وہاں موجود تھا اور میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ وزیر کے ہدیے اسی ترتیب سے پیش کیے گئے تھے جس طرح میں نے بیان کیا۔ منجملہ اور دولت مندی کے سامانوں کے میں نے اُس موقع پر دیکھا کہ ایک سینی میں عمدہ اور بے بہا یاقوت اور ایک سینی میں بے مثل زمرد اور ایک میں بڑے بڑے موتی بادشاہ کی نذر گذرانے گئے تھے۔ دولت مندی کے یہ نمونے دیکھ کے مجھے حیرت ہو گئی۔ خصوص یہ دیکھ کے کہ سلطان ابو سعید بادشاہ عراق کے بھتیجے حاجی کاون بھی وہاں موجود تھے۔ بادشاہ نے اُن مذکورہ جواہرات میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ اُن کو دے دیا تھا۔

دہلی میں عیدین کو بڑی کیفیت ہوتی ہے اور بے شک اُس روز یہاں کی دولت و عظمت کا جبروت نظر آیا کرتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاہان دہلی کی عظمت بمقابلہ دیگر فرمانروایان بلاد کے کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔ جس روز صبح کو عید ہونے والی ہوتی ہے، اُس روز رات ہی کو بادشاہ کی طرف سے تمام عمائد سلطنت، مقربین خلافت، اہل دولت، معزز لوگوں، نائبوں، حاجبوں، نقیبوں، سرداران عساکر، غلاموں اور پرچہ و پیام پیش کرنے والوں کے پاس حسب مراتب و مدارج خلعت بھیج دیے جاتے ہیں۔ صبح ہوئی اور ہاتھی عمدہ عمدہ مرصع اور طلاکار جھولوں اور عماریوں سے آراستہ کیے جانے لگے۔ یہ ہاتھی سر سے پاؤں تک جواہرات، سونے اور ریشم میں غرق ہوتے ہیں۔ سولہ ہاتھی تو خاص شاہنشاہ کی سواری کے لیے مخصوص ہوتے ہیں جن پر کسی کی مجال نہیں کہ سوار ہو سکے۔ ہر سلطانی ہاتھی کی عماری پر ایک مرصّع چھتر بھی نصب ہوتا ہے جو مرصع کار سونے ہی کے ڈنڈے پر قائم ہوتا ہے۔ اُن میں سے ایک ہاتھی پر سلطان سوار ہوتا ہے اور بڑے جلوس اور دھوم دھام سے سواری عید گاہ کو روانہ ہوتی ہے۔ سلطانی ہاتھی کے آگے غلام صف باندھ کے چلتے ہیں جن کے سروں پر طلائی ٹوپیاں اور کمروں میں طلائی پٹکے ہوتے ہیں، ان میں سے بعضوں کی ٹوپیاں اور پٹکے مرصع کار بھی ہوتے ہیں۔ اُن کے بعد چاؤشوں اور نقیبوں کا ہجوم ہوتا ہے جو پکارتے جاتے ہیں کہ “سواری ہے شاہنشاہ ہندوستان کی”۔ ان نقیبوں کا شمار تین سو ہے، اُس روز سب کے سب ہمراہ رکاب ہوتے ہیں۔ اُن کے بھی سروں پر ہندی ٹوپیاں اور کمروں میں سنہری پیٹیاں ہوتی ہیں اور ہاتھوں میں طلاکار گُرز ہوتے ہیں۔

بادشاہ کے بعد قاضی القضاۃ صدر جہاں ناصر الدین خوارزمی کا ہاتھ ہوتا ہے اور اُن کے جلو میں کل قاضی اور اعزائے خراسان و عراق و شام و مصر و مغرب کے مفلوک الحال ہوتے ہیں جن کی خدمت گزاری سلطنت کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اُن میں سے ہر شخص ایک جداگانہ ہاتھی پر سوار ہوتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں خراسان کے محتاج و فلاکت زدہ اس کثرت سے آئے اور آتے ہیں کہ یہاں جتنے محتاج ہیں سب خراسانی خیال کیے جاتے ہیں۔ اس گروہ کے بعد مؤذن لوگ بھی ہاتھیوں پر سوار ساتھ ہوتے ہیں جو راستہ میں برابر بآواز بلند کلمات تہلیل و تکبیر کہتے جاتے ہیں۔

درِ دولت کے باہر تمام فوجیں اور کل عمائد شہر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ جلوس شاہی کے منتظر کھڑے ہوتے ہیں اور اس انتظام سے کہ ہر امیر کے ساتھ علاحدہ باجے، روشن چوکیاں، طبل اور علم اُس کی عزت اور اُس کے رتبہ کے موافق موجود ہوتے ہیں۔ بادشاہ جب مندرجۂ بالا حیثیت سے چل کے در دولت کے باہر نکلتا ہے تو یہ سب لوگ حسب ضابطہ سلامی لیتے ہیں۔ اور اب عید گاہ کی طرف اس شان و شوکت سے جلوس روانہ ہوتا ہے کہ سب کے آگے شاہی ہاتھی اور اُسی حیثیت سے جس طرح ہم بیان کر آئے، یعنی غلام اور چاؤش آگے آگے انتظام کرتے ہوئے اور عام پبلک کو شاہی عظمت و جبروت کی اطلاع دیتے ہوئے۔ اور بادشاہ کے ہاتھی کے بعد ہی قاضی القضاۃ اور اعزا وغیرہ رہتے ہیں اور مؤذن بھی اسی طرح ہاتھیوں پر بیٹھے تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے ہمراہ نکل جاتے ہیں، پھر ان سب لوگوں کے بعد امرا و رؤسا کے جلوس اپنی شانداری سے باجے بجاتے ہوئے چلتے ہیں۔ طبل بجتا جاتا ہے اور قرنا پھنکتا جاتا ہے۔ پہلے تو سلطان کے بھائی مبارک خان پورے جلوس اور تمام سامانوں کے ساتھ چلتا ہے۔ پھر بادشاہ کا چچازاد بھائی ملک فیروز اپنے جلوس کے ساتھ بڑھتا ہے۔ پھر حضور کا بھتیجا بہرام خان اپنے ساز و سامان کے ساتھ چلتا ہے۔ پھر وزیر اعظم مع اپنے خدم و چشم کے۔ پھر ملک مجیر بن ذی الرجا اپنی فوج اور اپنے جلوس کے ساتھ روانہ ہوتا ہے۔ پھر دہلی کا بہت بڑا صاحب سطوت رئیس اپنے جلوس کو آگے بڑھاتا ہے جو ملک الکبیر قبولہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بہت ہی بڑا متمول اور صاحب اختیار شخص ہے۔ اُس کے دفتر کا دیوان اعظم ملک علاء الدین علی مصری معروف بہ ابن شرایشی جس کو میں بہت ہی معتبر شخص جانتا ہوں، خود اُس نے مجھ سے بیان کیا کہ اُس کو خزانہ سلطانی سے بابت مصارف خانگی کے چھتیس لاکھ روپیہ سالانہ ملتا ہے۔ ملک قبولہ کے بعد ملک نکبیہ اپنے جلوس کے ساتھ روانہ ہوتا ہے۔ پھر عزۃ الملک اپنے لوگوں کو بڑھاتا ہے۔ پھر مخلص الملک پھر قطب الملک۔ غرض تمام امرا اپنے جلوس کو لے کے چلتے ہیں۔ یہ سب دہلی کے بہت بڑے رؤسا ہیں اور ایسے ہیں کہ کسی وقت سلطان سے جدا نہیں ہوتے ہیں۔ عید کے روز انہیں حکم ہے کہ اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ اور اپنے عطا شدہ مراتب کا بخوبی اظہار کر کے تزک و احتشام سے ہمراہ رکاب سلطان عید گاہ کو جایا کریں۔ ان سب کے علاوہ اور چھوٹے چھوٹے صدہا رؤسا ہیں جو یکے بعد دیگرے اس سلسلۂ جلوس میں عید گاہ کو جاتے ہیں۔ اور آج کے دن جتنے ہیں سب مسلح ہوتے ہیں اور نیز اُن کے گھوڑے اور ہاتھی بھی خوب آراستہ نظر آتے ہیں۔ بادشاہ عیدگاہ کے دروازے پر پہونچ کے ٹھہر جاتا ہے اور قاضی القضاۃ سے اندر جانے کی درخواست کرتا ہے، پھر امرائے کبار اور نیز اُن بیرونی مصیبت زدہ کبار اعزا کو داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ جب یہ لوگ جا چکتے ہیں تو خود ہاتھی سے اُتر کر عید گاہ میں جاتا ہے۔ بادشاہ کے پہونچتے ہی امام اُٹھ کے نماز پڑھاتا ہے اور خطبہ پڑھتا ہے۔ اور اگر عید الاضحیٰ ہوئی تو قربانی کے لیے اونٹ حاضر کیا جاتاہے اور سلطان اپنےہاتھ سے نیزہ مار کے اُسے ذبح کرتا ہے۔ ذبح کرنے کے وقت بادشاہ اپنے جسم پر ایک کپڑا لپیٹ لیا کرتا ہے تاکہ لباس شاہی خون کے دھبوں سے محفوظ رہے۔

عید کے دن جو دربار ہوتا ہے وہ بھی نہایت پُرتکلف اور بڑی شان و شوکت سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اُس کا حال ہم پھر بیان کریں گے۔ اس لیے کہ اب یہ مضمون بہت طولانی ہو گیا اور اگر زیادہ بڑھ گیا تو لوگوں کی دلچسپی نہ ہو گی۔