دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
چتونوں میں ہے بھرا سارے زمانے کا مزا
کس مزے سے ہے عیاں دزدیٔ دل ہے ظالم
لوں چرا کیونکہ ترے آنکھ چرانے کا مزا
لذت وصل کوئی پوچھے تو پی جاتا ہوں
کہہ کے ہونٹوں ہی میں ہونٹوں کے ملانے کا مزا
کیا ترے میکش الفت کا یہ کیفیت ہے
درد دل کر کے بیاں رونے رلانے کا مزا
دست بر دل ہو اٹھاتا ہوں عجب لذت درد
یاد کر ہجر میں وہ ہاتھ بڑھانے کا مزا
جو خموشی میں ہے لذت نہیں گویائی میں
بے خودی سا ہے کہاں آپ میں آنے کا مزا
اس کے لڑنے کے بھی صدقے کہ نظر آتا ہے
عین رنجش میں عجب آنکھ لڑانے کا مزا
خواب و خور سے ترے بیمار کو کیا کام کہ ہے
لذت خواب نہ کچھ اس کو نہ کھانے کا مزا
یاد آتا ہے تو جاتا ہوں خدا جانے کہاں
وہ لگاوٹ کی نگاہوں میں بلانے کا مزا
کیا کہوں وصل کی شب لے کے بلائیں اس کی
کیا اٹھاتا ہوں میں زانو پہ بٹھانے کا مزا
میں تو پھر آپ میں رہتا نہیں دل سے پوچھو
آگے پھر بھینچ کے چھاتی سے لگانے کا مزا
در پہ اس پردہ نشیں کے ہو تو با صوت بلند
شعر اس وقت ہے جرأتؔ سے پڑھانے کا مزا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |