Jump to content

دیہاتی بولیاں ۱

From Wikisource
دیہاتی بولیاں ۱ (1942)
by سعادت حسن منٹو
319906دیہاتی بولیاں ۱1942سعادت حسن منٹو

آیئے! آپ کو پنجاب کے دیہاتوں کی سیر کرائیں۔ یہ ہندوستان کے وہ دیہات ہیں جہاں رومان، تہذیب و تمدن کے بوجھ سے بالکل آزاد ہے۔ جہاں جذبات بچوں کی مانند کھیلتے ہیں۔ یہاں کا عشق ایسا سونا ہے جس میں مٹی ملی ہوئی ہے۔ تصنع اور بناوٹ سے پاک ان دیہاتوں میں بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ قدم قدم پر آپ کو شاعری نظر آئے گی، جو اوزان کی قید اور لفظی بندشوں سے بالکل آزاد ہے۔

یہاں کی کھلی ہوا میں آپ چلیں پھریں گے تو آپ اپنے اندر ایک نئی زندگی پائیں گے۔ آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ آپ بھی عشق کر سکتے ہیں، آپ کے اندر بھی پھیل کر والہانہ وسعت اختیار کر لینے کی قوت موجود ہے، آپ بھی پرندوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں اور ہواؤں کی گنگناہٹ آپ کے لئے بھی کچھ معنی رکھتی ہے۔ جب ابابیلیں خاموش آسمان میں ڈبکیاں لگاتی ہیں اور شام کو چمگادڑیں قطار اندر قطار جنگلوں کی طرف تیرتی ہیں اور گاؤں واپس آنے والے ڈھور ڈنگروں کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگرو بجتے ہیں اور فضا پر ایک دلفریب ناچ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، تو آپ کا دل بھی کبھی پھیلے گا اور کبھی سکڑے گا۔

وہ دیکھئے، سامنے کچے کوٹھے زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ دیواروں پر بڑے بڑے اپلوں کی قطار دور تک چلی گئی ہے۔ مٹی کے یہ گھروندے بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان میں فاصلہ نہیں۔ ایک کوٹھا دوسرے کوٹھے سے ہمکنار ہے، اسی طرح اس کھلے میدان پر ایک اور کھلا میدان بن گیا ہے۔ ان کوٹھوں پر چار پائیاں اوندھی پڑی ہیں۔ گنے کے لمبے لمبے چھلکے جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہے، دھوپ اتنی تیز ہے کہ چیل بھی انڈا چھوڑ دے۔ فضا ایک خوابگوں اداسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی کسی چیل کی باریک چیخ ابھرتی ہے اور خاموشی پر ایک خراش سی پیدا کرتی ہوئی ڈوب جاتی ہے۔۔۔ مگر اس تیز دھوپ میں یہ کوٹھے پر کون چڑھا ہے۔۔۔ ارے، یہ تو کوئی اس گاؤں کی مٹیار (نوجوان لڑکی) ہے۔ دیکھو تو کس انداز سے تپے ہوئے کوٹھے پر ننگے پیر چل رہی ہے۔ یہ لو وہ کھڑی ہو گئی۔ اسے کس کا انتظار ہے۔ اس کی آنکھیں کس کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ ببولوں کے جھنڈ میں یہ کیا دیکھ رہی ہے۔ کب تک یہ ایسے کھڑی رہے گی۔ کیا اس کے پیر نہیں جلتے شاید اسی نے یہ کہا ہوگا،

کوٹھے اپر کھلیاں
میری سٹرگیاں پیر دیاں تلیاں
میرا یار نجر نہ آوے

(ترجمہ، میں کوٹھے پر کھڑی ہوں اور یوں کھڑے کھڑے میرے پیر کے تلوے جل گئے ہیں۔۔۔ لیکن میرا عاشق نظر نہیں آتا۔ )

نہیں اس نے تو گنے کے سوکھے ہوئے چھلکے اکٹھے کرنے شروع کر دیے ہیں۔۔۔ لیکن یہ پھر بار بار ادھر کیوں دیکھتی ہے جدھر بوڑھے برگد کے سائے تلے ایک نوجوان ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی لئے کھڑا ہے۔۔۔ کیا یہ اس کا ’’وہ‘‘ تو نہیں۔۔۔؟ اس کی لاٹھی پر پیتل کے کوکے کتنے چمک رہے ہیں!ہم ادھر نوجوان کی طرف دیکھتے رہے اور ادھر آخری کوٹھے پر جو کہ یہاں سے کافی دور ہے، ایک اور نوجوان لڑکی نمودار ہو گئی۔ دور سے کچھ دکھائی تو نہیں دیتا مگر اس کی ناک کی لونگ کتنی چمک رہی ہے۔ کیا اسی لونگ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا،

تیرے لونگ دا پیا لشکارا
ہالیاں نے ہل ڈک لئے

(ترجمہ، تیرے لونگ (ناک کی کیل) نے جب چمک پیدا کی تو ہل چلانے والوں نے اپنے ہل روک لئے۔۔۔ اس خیال سے کہ بجلی چمک رہی ہے اور بارش آ رہی ہے۔)

اجی نہیں یہ تو کچھ اور ہی معاملہ ہے۔۔۔ یہ دیکھئے، ادھر کی لڑکی اس لڑکی کو اشارہ کر رہی ہے۔ شاید اسے آنے کے لئے کہہ رہی ہے، پھر اس طرف بھی جھک کر دیکھتی ہے، جہاں گاؤں کا وہ نوجوان آدمی سائے تلے کھڑا ہے۔ ایک ہاتھ سے لاٹھی پکڑے ہے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے گلے میں پڑے ہوئے تعویذوں سے کھیل رہا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ ’’بولی‘‘ یاد آ جاتی ہے جو اس گاؤں کے تمام لڑکوں کو یاد ہے۔ کیا ہے۔۔۔؟ ہاں۔۔۔

منڈا موہ لیا تویتاں والا
دمڑی دا سک مل کے

(ترجمہ، ایک تکڑے جوان کو جس نے آفات سے محفوظ رہنے کے لئے تعویذ پہن رکھے تھے، ایک لڑکی نے دمڑی کا سک (اخروٹ یا کسی اور درخت کی چھال جس سے ہونٹ رنگے جاتے ہیں) مل کر موہ لیا۔)

پھر اشارے ہو رہے ہیں۔ ادھر کی لڑکی اسے جلدی آنے کے لئے اشارہ کر رہی ہے۔۔۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتی،

کوٹھے کوٹھے آ لچھئے
تینوں بنتو دا یار وکھاواں

(ترجمہ، کوٹھے کوٹھے چلی آ لچھی۔۔۔ میں تجھے بنتو کا عاشق دکھاؤں)

کیا پتہ ہے کہ یہ نوجوان جو برگد کے سائے تلے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا ہے، بنتو ہی کا عاشق ہو۔ بنتو کا نہ ہوگا تو کسی اور کا ہوگا۔ کیونکہ بہر حال اسے کسی کا تو عاشق ہونا ہی چاہیئے۔ دیکھئے کس انداز سے کھڑا ہے۔ سر پر سفید کھادی کا صافہ باندھ رکھا ہے اور اپنے آپ کو کس قدر اہم سمجھ رہا ہے۔ اس کو دو نوجوان لڑکیوں نے اس حالت میں دیکھ لیا ہے، اب سارے گاؤں کی کنواریوں کو معلوم ہو جائے گا کہ سر پر سفید کھادی کا صافہ باندھ کر وہ برگد کے سائے تلے کھڑا تھا۔ کیا کیا باتیں نہ ہوں گی۔ پھبتیاں اڑائی جائیں گی اور کنوئیں پر دیر تک ہنسی اور قہقہوں کے چھینٹے اڑتے رہیں گے اور کیا پتہ ہے کہ کوئی شریر چھوکری اونچے سر میں یہ گانا شروع کر دے۔

سر بنھ کے کھدر وا صافا
چندرا شوقین ہو گیا

(ترجمہ، سر پر کھادی کا صافہ باندھ کر بے چارہ شوقین ہو گیا ہے۔ )

یہ چھوکری جب ہنسے گی تو اس کے دانتوں میں ٹھکی ہوئی سونے کی کیلیں بھی ہنسیں گی اور کیا پتا ہے کہ وہاں پاس ہی کسی جھاڑی کے پیچھے کوئی شریر لونڈا چھپا بیٹھا ہو۔ وہ یہ ہنستی ہوئی کیلیں دیکھ لے اور اٹھ کر جب کھیتوں کا رخ کرے تو دفعتاً اس کے ہونٹ وا ہوں اور یہ بولی پرندے کی طرح پھر سے اڑ جائے۔

موج سنیارا لے گیا
جنہیں لائیاں دنداں وچ میکھاں

(ترجمہ، مزہ تو وہ سنیارا لے گیا جس نے تمہارے دانتوں میں یہ کیلیں جڑیں۔ )

یہ لڑکا جب کھیتوں سے لوٹ کر گاؤں آئے گا اور شام کو چوپال پر حقے کے دور چلیں گے تو وہاں وہ سفید صافے والا بھی ہوگا۔ اس کو معلوم ہو جائے گا کہ کنوئیں پر پانی بھرنے کے دوران میں کس ظالمانہ طریق پر اس کا مضحکہ اڑایا گیا ہے تو وہ افسردہ اور مغموم ہو جائے گا، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اس کو اپنی معشوقہ کی بے رخی ستاتی رہے گی، ایک آہ کی صورت میں آخر کار اس کے سینے میں یہ الفاظ اٹھیں گے۔

کلا ٹکریں تے حال سناواں
دکھاں وچ پے گئی جندڑی

(ترجمہ، اس میں اپنے کسی دوست کو یا اپنے ہی آپ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اگر تم مجھے اکیلے میں ملو تو میں تمہیں سارا حال سناؤں۔ میری زندگی دکھوں میں گھر گئی ہے۔)

ممکن ہے، وہ اپنے کسی دوست کو ہمدرد جان کر حال دل کہے مگر اتفاق ایسا ہو کہ ان دونوں میں کسی بات پر جھگڑا ہو جائے جسے اس نے اپنا ہمدرد بنایا تھا اسے سارے گاؤں میں نشر کر دے اس پر یہ کوئی ضرور کہے گا،

یاری وچ نہ وکیل بنایئے
لڑکے دس دؤ گا

(ترجمہ، عشق میں کسی کو وکیل نہ بنانا چاہیئے، کیونکہ اگر اس سے لڑائی ہو گئی تو وہ سارا بھید کھول دے گا۔)

پھر نامراد عاشق یہ سمجھ کر کہ اس کا عشق ناکام رہا ہے، ہل چلاتے ہوئے دوپہر کی اداس دھوپ میں یکایک بول اٹھے گا۔

میری لگدی کسے نہ دیکھی
تے ٹٹ دی نوں جگ جان دا

(ترجمہ، جب میری اور اس کی محبت ہوئی تو کسی کو پتا تک نہ چلا، مگر اب کہ یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے، ساری دنیا کو معلوم ہو گیا ہے اور جگ ہنسائی کا باعث ہوا ہے۔)

لیکن کیا پتا ہے کہ دوسری طرف اس کی معشوقہ کو بھی کچھ کہنا ہو۔ کیا پتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہو اور ظاہر نہ کر سکتی ہو، کیونکہ یہ بول اس کے منہ سے بغیر کسی وجہ کے تو نہیں نکلیں گے۔

یار سی سرو دا بوٹا
ویہڑے وچ لا رکھدی

(ترجمہ، یار میرا کیا تھا سرو کا درخت تھا۔ بس اسے اپنے صحن میں لگا چھوڑتی۔)

اتنے میں فوج کی بھرتی شروع ہو جائے گی اور اس کا یہ سرو قد یار لام پر چلا جائے گا۔ اس کی دنیا سونی ہو جائے گی۔ جب برسات آئے گی، پیپل کے درختوں میں جھولے پڑیں گے، آم کے درختوں پر پپیہے پیہو پیہو پکاریں گے، کوئلیں کو کیں گی، سارا گاؤں خوش ہو گا تو وہ۔۔۔ وہ اپنے گھر کی گیلی منڈیر کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ کر پکارے گی۔

بول وے نمانیاں کاواں
کوئلاں کوک دیاں

(ترجمہ، اے نمانے کوے تو ہی بول، کوئلیں کوک رہی ہیں۔۔۔ کوا اگر بولے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی عزیز آنے والا ہے۔ )

میدان خالی ہونے پر اس گاؤں میں ایک اور عاشق بھی پیدا ہو جائے گا۔ وہ ہر روز اس امید پر اس کے گھر کے پاس سے گزرا کرے گا کہ ایک روز وہ اسے ضرور بلائے گی اور اشاروں ہی اشاروں میں باتیں ہوں گی مگر ایسا نہیں ہوتا۔ آخرکار وہ تنگ آ کر کہے گا،

کدی چندریئے ہاک نہ ماری
چوڑے والی بانہہ کڈھ کے

ترجمہ، لفظ چندری کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ اردو میں اس کے لئے کوئی مترادف لفظ مجھے نہیں ملا۔ چندری پنجابی زبان میں مختلف معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی ہمدردی کے طور پر اس کو گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں محبت اور شکایت دونوں اس میں شامل ہیں۔ وہ اس کو چندری سے مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تونے کبھی اپنے چوڑے (ہاتھی دانت کی بنی ہوئی چوڑیوں کا ایک گروہ جو کلائی سے لے کر کہنی تک دیہات کی عورتیں پہنتی ہیں) والا بازو باہر نکال کر مجھے اشارہ نہیں کیا، مجھے اپنے پاس نہیں بلایا۔

ایک زمانہ گزر جائے گا۔ عشق کی داستان فسانہ بن جائے گی اور آخر ایک روز یہ دیہاتی حسینہ کسی کے ساتھ بیاہ دی جائے گی۔ اس کے بیاہ پر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوں گی۔ لوگ اس کا اور اس کے خاوند کا مقابلہ کریں گے اور کوئی نوجوان چیخ اٹھے گا،

منڈا روہی دی ککر دا جا تو
ویاہ کے لے گیا چندر ورگی

(ترجمہ، ’’روہی دی ککر‘‘ ایک خاص قسم کے ببول کو کہتے ہیں، جس کی لکڑی بڑی کرخت اور کالی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرد جو کہ روہی کے ببول کی طرح کھردرا اور کالا تھا، چاند جیسی دلہن بیاہ کر لے گیا ہے۔)

پہلی رات آئے گی۔ ہزاروں کپکپاہٹیں اپنے ساتھ لئے۔ ایک پلنگ پر دلہن گٹھڑی بنی ہوئی اپنے حنا آلود ہاتھ جوڑے گی اور اپنے آمادۂ ظلم خاوند سے منت بھرے لہجے میں کہے گی،

مینوں اج دی رات نہ چھیڑیں
مہندی والے ہتھ جوڑ دی

(ترجمہ، مجھے صرف آج کی رات نہ چھیڑو، دیکھو میں اپنے حنا آلود ہاتھ جوڑ رہی ہوں۔)

کیا وہ مان جائے گا؟ کیا جوڑے ہوئے حنا آلود ہاتھ اس ظالم کے دل میں رحم پیدا کر دیں گے۔۔۔؟ خیر اس قصے کو چھوڑیئے۔ یہ مرحلہ کسی نہ کسی طرح طے ہو ہی جائے گا اور دلہن پرانی ہو جائے گی، پھر جھگڑے شروع ہوں گے اور ایک روز اس کا خاوند اس کے پہلے عاشق کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس وقت سینے پر پتھر رکھ کر خاموش تو ہو جائے گی مگر اکیلے میں اس کے منہ سے یہ بول نکلیں گے۔

میرے یار نوں مندا نہ بولیں
میری بھانویں گت پٹ لئیں

(ترجمہ، میری تم چٹیا جڑ سے اکھیڑ لو، مگر میرے یار کو برا نہ کہو۔ )

اور۔۔۔ اور پھر۔۔۔ یونہی عمر بیت جائے گی اور یہ فسانہ اس دیہات میں نئے فسانے پیدا کرے گا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.