ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
مکاں میں یوں ہے کہ جیسے کوئی مکاں میں نہیں
وہ چھیڑ چھیڑ کے پوچھیں نہ دل کے درد کا حال
کہو زباں سے یہ طاقت مری زباں میں نہیں
چمن میں کس کے لیے بجلیاں تڑپتی ہیں
گل آشیاں میں نہیں شاخ آشیاں میں نہیں
تمہارے در سے اٹھاتا ہے کیوں ہمیں درباں
کچھ ایسے لعل لگے سنگ آستاں میں نہیں
میں سر بکف ہوں وہ خنجر بکف ہیں مقتل میں
اجل سے کہہ دو کہ اب دیر امتحاں میں نہیں
کریں گے وہ نگہ ناز سے ہدف دل کو
چڑھی کمان ہے ناوک مگر کمان میں نہیں
جگر نے جی جو چرایا تو دل پکار اٹھا
شریک حال مرا کوئی امتحاں میں نہیں
نظر نہ کی مرے حال تباہ پر اس نے
یہ کہہ دیا کہ اثر کچھ مری فغاں میں نہیں
مثل یہ ایک زمانے میں سنتے آئے ہیں
نہ ہو مکین تو رونق کوئی مکاں میں نہیں
جو پھول آج کف گل فروش میں دیکھا
وہ باغباں کے بھی اب وہم میں گماں میں نہیں
یہ لطف پوچھئے کچھ آپ مرنے والوں سے
جناب خضر مزا عمر جاوداں میں نہیں
سنا کہ قصۂ صفدرؔ ہے درد سے خالی
مزے کی چیز یہی تھی جو داستاں میں نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |