ذکر جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
ذکر جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
واعظ احساں کر جو تجھ سے ہو سکے
راز دل ظاہر نہ ہو اے دود آہ
داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
پھونکتا ہے مجھ کو یہ سوز دروں
چشم گریاں کر جو تجھ سے ہو سکے
اے مسیحا مجھ کو ہے آزار عشق
میرا درماں کر جو تجھ سے ہو سکے
قیس کو روتا ہوں اے دشت جنوں
فکر داماں کر جو تجھ سے ہو سکے
چپ ہے کیوں او بت خدا کی واسطے
کچھ تو ہوں ہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
دل تو اس پہ آج صدقے ہو گیا
تو بھی اے جاں کر جو تجھ سے ہو سکے
لا مغل کی تیغ ابرو کا جواب
عزم صفہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
راز پوشی میری دود آہ کی
دود قلیاں کر جو تجھ سے ہو سکے
کھیت دکھلا مجھ کو اے شمشیر یار
کار دہقاں کر جو تجھ سے ہو سکے
خرمن ماہ درخشاں کو اڑا
کار دہقاں کر جو تجھ سے ہو سکے
تا بہ کے یاد رخ جاناں دلا
حفظ قرآں کر جو تجھ سے ہو سکے
وہ پری میری مسخر ہو یہ کام
اے سلیماں کر جو تجھ سے ہو سکے
ایک دن دیوار ہی پھاندوں گا میں
خیر درباں کر جو تجھ سے ہو سکے
یوں ہی ظاہر ہو شب فرقت کی صبح
داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
اے فرنگن خانۂ ویراں مرا
انگلستاں کر جو تجھ سے ہو سکے
کر مرا گھر فیض مقدم سے بہشت
مجھ کو رضواں کر جو تجھ سے ہو سکے
جھڑکیاں دی گالیاں دی دل دکھا
اے مری جاں کر جو تجھ سے ہو سکے
نزع میں تو جائے شرب مے پلا
ساقی احساں کہ جو تجھ سے ہو سکے
تو ہی تربت پر مری چادر چڑھا
ماہ تاباں کر جو تجھ سے ہو سکے
اے دل نالاں کہاں تک شور و غل
ضبط افغاں کر جو تجھ سے ہو سکے
مہرؔ یوں فکر پریشاں تا بہ کے
جمع دیواں کر جو تجھ سے ہو سکے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |