رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
Appearance
رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
وہ روٹھ کر گیا تو غضب رات بڑھ گئی
یہ کہیو ہم نشیں مجھے کیا کیا نہ کہہ گئے
میں گھٹ گیا نہ آپ کی کچھ ذات بڑھ گئی
بوسے کے نام ہی پہ لگے کاٹنے زباں
کتنی عمل سے آگے مکافات بڑھ گئی
چشموں سے میرے شہر میں طوفان گریہ ہے
نادان جانتے ہیں کہ برسات بڑھ گئی
سمجھا تھا میں کمر ہی تلک زلف کا کمال
وہ پانو سے بھی آگے کئی ہات بڑھ گئی
اغیار سے نہیں ہے سروکار یار کو
میرے بہ رغم ان پہ عنایات بڑھ گئی
بے طوریوں سے اس کی بیاںؔ میں تو کھنچ رہا
غیروں کی اس کے ساتھ ملاقات بڑھ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |