رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا
رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا
دل کو مجھ سے مجھے کچھ دل سے سروکار نہ تھا
گرد اس کوچے کے کس دن یہ گناہ گار نہ تھا
واے حسرت کہ کوئی رخنہ بہ دیوار نہ تھا
کل تو بیمار کو تھا تیرے نہ بستر پہ قرار
آج بستر تھا فقط اور وہ بیمار نہ تھا
شکر اے باد فنا جوں شجر سوختہ میں
تھا تو گلشن میں ولے قابل گل زار نہ تھا
نہیں تل دھرنے کی جاگہ جو بہ افزونیٔ حسن
دیکھا شب اس کو تو اک خال بہ رخسار نہ تھا
رات کیا بات تھی بتلا ترے صدقے جاؤں
آہیں بھرنا وہ ترا خالی از اسرار نہ تھا
دل کو دھر نوک سناں پر وہ یہ بولا ہنس کے
ہم نے منصور کو دیکھا بہ سر دار نہ تھا
بحث میں چشم تر و ابر کی کل تھا جو سماں
کبھی اس شکل سے رونے کا بندھا تار نہ تھا
ذبح ہم سامنے ہوتے ہی ہوئے قاتل کے
باوجودیکہ کوئی ہاتھ میں ہتھیار نہ تھا
بعد مردن مرے تابوت پہ سب روتے تھے
چشم پر آب مگر اک وہ ستم گار نہ تھا
لیک کیا منہ کو چھپاتا تھا جو کہتے تھے یہ لوگ
اس کو ظاہر میں تو مرنے کا کچھ آزار نہ تھا
طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |