رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
Appearance
رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
میں بھی تا صبح رکھی بلبل گل زار سے بحث
نو بہاراں میں وہ ہو جاوے ہے کیوں سرخ مگر
داغ دل کو ہے مرے لالۂ کہسار سے بحث
طالب علم محبت جو میں تھا طفلی میں
تھی نت آنکھوں کی مرے حسن رخ یار سے بحث
صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ
نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث
سو زباں گو ہوئیں منہ میں ترے اے غنچۂ گل
تجھ کو لازم نہیں کرنا مری منقار سے بحث
شیوہ ہر چند کہ اپنا نہیں طالب علمی
تو بھی موجود ہیں ہم کرنے کو دو چار سے بحث
یوں ہوئی ہار گلے کا مرے وہ نرگس مست
جوں کرے راہ میں کوئی کسی ہشیار سے بحث
ہوں وہ دیوانہ کہ اک شب بھی جو میں گھر میں رہوں
رات کو صبح کروں کر در و دیوار سے بحث
عقل کل نے نہیں الزام دیا اس کو حسود
دور ہو، کر نہ عبث مصحفیؔ زار سے بحث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |