رات یاد نگہ یار نے سونے نہ دیا
Appearance
رات یاد نگہ یار نے سونے نہ دیا
شادئ وعدۂ دل دار نے سونے نہ دیا
ہو گئی صبح در خانہ پہ بیٹھے بیٹھے
فتنۂ چشم فسوں کار نے سونے نہ دیا
شب وہ بے کل رہے کاکل میں پھنسا کر اس کو
شور و فریاد دل زار نے سونے نہ دیا
تھا شب ہجر میں اک خون کا دریا جاری
ایک پل دیدۂ خوں بار نے سونے نہ دیا
رات بھر خون جگر ہم نے کیا ہے عارفؔ
فکر رنگینیٔ اشعار نے سونے نہ دیا
اس تن زار پہ ایک بار گراں ہے یہ بھی
یار کے سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
اب تو کر دیویں رہا وہ مجھے شاید کہ انہیں
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |