راز دل دوست کو سنا بیٹھے
راز دل دوست کو سنا بیٹھے
مفت میں مدعی بنا بیٹھے
انجمن ہے تری طلسم رشک
آشنا ہیں جدا جدا بیٹھے
کثرت سجدہ سے پشیماں ہیں
کہ ترا نقش پا مٹا بیٹھے
کل جو تاج و حشم کو چھوڑ اٹھے
آج وہ تیرے در پہ آ بیٹھے
کی ہے آخر کو ناشتا شکنی
داغ پر داغ ہم تو کھا بیٹھے
طرز ساقی سے دیر کے سب لوگ
کر رہے ہیں خدا خدا بیٹھے
شاخ گل کی نزاکتوں سے ڈرے
بار تھے مشت پر اڑا بیٹھے
شکوہ عاشق کشی کا فرض نہ تھا
یاد یہ کیا انہیں دلا بیٹھے
درد سر تھی دعا محبت میں
ہاتھ ہم جان سے اٹھا بیٹھے
اے قیامت تو اٹھ کے پوچھ مزاج
ہیں وہ کچھ آپ ہی خفا بیٹھے
روئے اتنے کہ خوں ہوئی امید
خود جہاز اپنا ہم بہا بیٹھے
بے تکلف مقام الفت ہے
داغ اٹھے کہ آبلہ بیٹھے
آسماں ڈھ پڑا اٹھے فتنے
جس جگہ لے کے مدعا بیٹھے
رسم تعظیم عشق تو دیکھو
درد اٹھا کہ جی مرا بیٹھے
اے قلقؔ تم سا بد دماغ ہے کون
چرخ کی ضد پہ گھر لٹا بیٹھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |