راز دل لاتے ہیں زباں تک ہم
Appearance
راز دل لاتے ہیں زباں تک ہم
دکھ بھریں اے خدا کہاں تک ہم
اور وہ ہم سے کھنچتے جاتے ہیں
منتیں کرتے ہیں جہاں تک ہم
نہ اڑا باغباں کہ گلشن دل
اور ہیں آمد خزاں تک ہم
آپ کے لطف نے تو قہر کیا
خوب تھے جور آسماں تک ہم
آسماں تک گیا ہے سیل سرشک
دل کو رویا کریں کہاں تک ہم
ان کا آنا بھی اب نہیں منظور
جان سے تنگ ہیں یہاں تک ہم
تیرا پیغام بھی سنا دیں گے
اے حسنؔ پہنچیں تو وہاں تک ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |