راکھی
چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی
سنہری سبز ریشم زرد اور گلنار کی راکھی
بنی ہے گو کہ نادر خوب ہر سردار کی راکھی
سلونوں میں عجب رنگیں ہے اس دل دار کی راکھی
نہ پہنچے ایک گل کو یار جس گل زار کی راکھی
عیاں ہے اب تو راکھی بھی چمن بھی گل بھی شبنم بھی
جھمک جاتا ہے موتی اور جھلک جاتا ہے ریشم بھی
تماشا ہے اہا ہا ہا غنیمت ہے یہ عالم بھی
اٹھانا ہاتھ پیارے واہ وا ٹک دیکھ لیں ہم بھی
تمہاری موتیوں کی اور زری کے تار کی راکھی
مچی ہے ہر طرف کیا کیا سلونوں کی بہار اب تو
ہر اک گل رو پھرے ہے راکھی باندھے ہاتھ میں خوش ہو
ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بامھن، آج تو یارو
میں اپنے ہاتھ سے پیارے کے باندھوں پیار کی راکھی
ہوئی ہے زیب و زینت اور خوباں کو تو راکھی سے
ولیکن تم سے اے جاں اور کچھ راکھی کے گل پھولے
دوانی بلبلیں ہوں دیکھ گل چننے لگیں تنکے
تمہارے ہاتھ نے مہندی نے انگشتوں نے ناخن نے
گلستاں کی چمن کی باغ کی گل زار کی راکھی
ادا سے ہاتھ اٹھتے ہیں گل راکھی جو ہلتے ہیں
کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں
کہاں نازک یہ پہنچے اور کہاں یہ رنگ ملتے ہیں
چمن میں شاخ پر کب اس طرح کے پھول کھلتے ہیں
جو کچھ خوبی میں ہے اس شوخ گل رخسار کی راکھی
پھریں ہیں راکھیاں باندھے جو ہر دم حسن کے تارے
تو ان کی راکھیوں کو دیکھ اے جاں چاؤ کے مارے
پہن زنار اور قشقہ لگا ماتھے اپر بارے
نظیرؔ آیا ہے بامھن بن کے راکھی باندھنے پیارے
بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تیوہار کی راکھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |