رتی، ماشہ، تولہ (افسانہ)
زینت اپنے کالج کی زینت تھی۔ بڑی زیرک، بڑی ذہین اور بڑے اچھے خدو خال کی صحتمند نوجوان لڑکی۔ جس طبیعت کی وہ مالک تھی اس کے پیشِ نظر اس کی ہم جماعت لڑکیوں کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھاکہ وہ اتنی مقدار پسند عورت بن جائے گی۔ ویسے وہ جانتی تھیں کہ چائے کی پیالی میں صرف ایک چمچ شکر ڈالنی ہے، زیادہ ڈال دی جائے تو پینے سے انکار کر دیتی ہے، قمیص اگر آدھا انچ بڑی یا چھوٹی سِل جائے تو کبھی نہیں پہنے گی۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند سے بھی نپی تلی محبت کرے گی۔
زینت سے ایک لڑکے کو محبت ہوگئی وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اس کا اور زینت کا مکان آمنے سامنے تھا۔ ایک دن اس لڑکے نے جس کا نام جمال تھا اسے کوٹھے پر اپنے بال خشک کرتے دیکھا تو وہ سر تاپا محبت کے شربت میں شرابور ہوگیا۔
زینت وقت کی پابند تھی۔ صبح ٹھیک چھ بجے اٹھتی، اپنی بہن کے دو بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتی، اس کے بعد خود نہاتی اور سر پر تولیہ لپیٹ کر اوپر کوٹھے پر چلی جاتی اور اپنے بال جو اس کے ٹخنوں تک آتے تھے، سکھاتی، کنگھی کرتی اور نیچے چلی جاتی۔ جوڑا وہ اپنے کمرے میں کرتی تھی۔
اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر عمل کے وقت معین تھے۔ جمال اگر صبح ساڑھے چھ بجے اٹھتا اور حوائج ضروری سے فارغ ہو کر اپنے کوٹھے پر پہنچتا تو اسے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑتا، اس لیے کہ زینت اپنے بال سکھا کر نیچے چلی گئی ہوتی تھی۔ ایسے لمحات میں وہ اپنے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتا اور ادھر ادھر دیکھ کے واپس نیچے چلا جاتا۔ اس کو سیڑھیاں اترتے ہوئے یوں محسوس ہوتا کہ ہر زینہ کنگھی کا ایک دندانہ ہے جو اترتے ہوئے ایک ایک کر کے ٹوٹ رہا ہے۔
ایک دن جمال نے زینت کو ایک رقعہ بھیجا۔ وقت پر وہ کوٹھے پر پہنچ گیا تھا جبکہ زینت اپنے ٹخنوں تک لمبے بال سکھا رہی تھی۔ اس نے یہ تحریر جو خوشبودار کاغذ پر تھی، روڑے میں لپیٹ کر سامنے کوٹھے پر پھینک دی۔ زینت نے یہ کاغذی پیراہن میں ملبوس پتھر اٹھایا۔ کاغذ اپنے پاس رکھ لیا اور پتھر واپس پھینک دیا۔ لیکن اس کو جمال کی شوخئ تحریر پسند نہ آئی اور وہ سر تا پا فریاد بن گئی۔ اس نے لکھا تھا۔ زلف برہم سنبھال کر چلیے
راستہ دیکھ بھال کر چلیے
موسمِ گُل ہے اپنی بانھوں کو
میری بانھوں میں ڈال کر چلیے
موسمِ گل قطعاً نہیں تھا۔ اس لیے اس آخری شعر نے اس کو بہت کوفت پہنچائی۔ اس کے گھر میں کئی گملے تھے جن میں بوٹے لگے ہوئے تھے، یہ سب کے سب مرجھائے ہوئے تھے۔ جب اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کا ردِعمل یہ ہوا کہ اس نے مرجھائے ہوئے،بے گل بوٹے اکھاڑے اور اس کنستر میں ڈال دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ جمع کیا جاتا تھا۔
ایک زلف اس کی برہم رہتی تھی۔ لیکن راستہ دیکھ بھال کر چلنے کا سوال کیا پیدا ہوتا تھا۔ زینت نے سوچا کہ یہ محض شاعرانہ تک بندی ہے لیکن اس کے بال ٹخنوں تک لمبے تھے۔ اسی دن جب اس کو یہ رقعہ ملا تو نیچے سیڑھیاں اترتے ہوئے جب ایک زینے پر اپنی ایک بھانجی کے کان سے گری ہوئی سونے کی بالی اٹھانی پڑی تو وہ اس کی سینڈل سے الجھ گئے اور گرتے گرتے بچی۔ چنانچہ اس دن سے اس نے راستہ دیکھ بھال کر چلنا شروع کیا۔ مگر اس کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر چلنے میں سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے زیادتی سمجھتی تھی۔ اس لیے کہ موسم گل نہیں تھا، موسم گل بھی ہوتا تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پھولوں سے بانہوں کا کیا تعلق ہے۔ اس کے نزدیک بانہوں میں بانھیں ڈال کر چلنا بڑا واہیات بلکہ سوقیانہ ہے۔ چنانچہ جب وہ دوسرے روز صبح ۶ بجے اُٹھی اور اپنی بھانجیوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ اتوار ہے۔ اس کے دل و دماغ میں وہ دو شعر سوار تھے۔
اس نے اسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بچیوں کو تیار کرے گی، اس کے بعد نہائے گی اور اپنے کمرے میں جا کر جمال کا رقعہ پڑھ کر اسے جی ہی جی میں کوسے گی مگر اتوار ہونے کے باعث اس کا یہ تہیہ درہم برہم ہوگیا۔ اسے وقت سے پہلے غسل کرنا پڑا، حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کے اوقات کے معاملے میں بڑی پابند تھی۔
اس نے غسل خانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا۔ دو بالٹیوں سے پہلے نہاتی تھی دو بالٹیوں سے اب بھی نہائی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس نے نہاتے وقت اپنی بانھوں کو دیکھا جو سڈول اور خوبصورت تھیں، پھر اسے جمال کی بانھوں کا خیال آیا لیکن اس نے ان کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ قمیص کی آستینوں کے اندر چھپی رہتی تھیں، ان کے متعلق وہ کیا رائے قائم کرسکتی تھی۔ بہر حال وہ اپنے گدرائے ہوئے بازو دیکھ کر مطمئن ہوگئی اور جمال کو بھول گئی۔
غسل میں کچھ زیادہ ہی دیر ہوگئی۔ اس لیے کہ وہ اپنے حسن و جمال کے متعلق اندازہ کرنے بیٹھ گئی تھی۔ اس نے کافی دیر غور کرنے پر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ زیادہ حسین تو نہیں لیکن قبول صورت اور جوان ضرور ہے۔ جوان وہ بلا شبہ تھی۔ وہ چھوٹی مختصر سی ریشمی چیز جو اس نے اپنے بدن سے اتار کر لکس صابن کی ہوائیوں میں دھوئی تھی، اس کے سامنے ٹنگی تھی۔ یہ گیلی ہونے کے باوجود بہت سی چغلیاں کھا رہی تھی۔
اس کے بعد روڑے میں لپٹا ہوا ایک اور خط آیا، اس میں بے شمار اشعار تھے۔ شعروں سے اسے نفرت تھی، اس لیے کہ وہ انھیں محبت کا عامیانہ ذریعہ سمجھتی تھی۔ خط آتے رہے، زینت وصول کرتی رہی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
وہ محبت کے شدید جذبے کی قائل نہیں تھی۔ اس کو جمال پسند تھا، اس لیے کہ وہ خوش شکل اور صحت مندجوان تھا۔ اس کے متعلق وہ لوگوں سے بھی سن چکی تھی کہ وہ بڑے اچھے خاندان کا لڑکا ہے۔ شریف ہے ،اس کو اور کسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ غالباً یہی وجہ تھی، ایک دن اس نے اپنی نوکرانی کے دس سالہ بچے کے ہاتھ اس کو یہ رقعہ لکھ کر بھیج دیا، ’’آپ کی رقعہ نویسی پر مجھے اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شعروں میں نہ ہوا کرے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھے چاندی اور سونے کے ہتھوڑوں سے کوٹ رہا ہے۔‘‘
یہ خط ملنے کے بعد جمال نے اشعار لکھنے بند کر دیے۔ لیکن اس کی نثر اس سے بھی کہیں زیادہ جذبات سے پر ہوتی تھی۔ زینت کی طبع پر یہ بھی گراں گزرتی۔ وہ سوچتی یہ کیسا آدمی ہے۔ وہ رات کو سوتی تو اپنا کمرہ بند کر کے قمیص اتار دیتی تھی، اس لیے کہ اس کی نیند پر یہ ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔ مگر جمال تو اس کی قمیص کے مقابلے میں کہیں زیادہ بوجھل تھا۔ وہ اسے کبھی برداشت نہ کرسکتی لیکن اس کو اس بات کا کا مل احساس تھا کہ وہ اس سے والہانہ محبت کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زینت نے جمال کو کئی موقعے دیے کہ وہ اس سے ہم کلام ہوسکے۔ وہ اس سے جب پہلی بار ملا تو کانپ رہا تھا۔ کانپتے کانپتے اور ڈرتے ڈرتے اس نے ایک ناول بغیر عنوان کے اپنی جیب سے نکالا اور زینت کو پیش کیا،’’اسے پڑھیے۔۔۔ میں۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور کانپتا لرزتا زینت کے گھر سے نکل گیا۔‘‘
زینت کو بڑا ترس آیالیکن اس نے سوچا کہ اچھا ہوا۔ اس لیے کہ اس کے پاس زیادہ وقت تخلیے کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابا ٹھیک ساڑھے سات بجے آنے والے تھے اور جمال سوا سات بجے چل دیا تھا۔ اس کے بعد جمال نے ملاقات کی درخواست کی تو زینت نے اسے کہلا بھیجا کہ وہ اس سے پلازہ میں شام کا پہلا شو شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مل سکے گی۔ زینت وہاں پندرہ منٹ پہلے پہنچی۔ جو سہیلی اس کے ساتھ تھی اس کو کسی بہانے اِدھر اُدھر کر دیا۔ دس منٹ اس نے باہر گیٹ کے پاس جمال کا انتظار کیا، جب وہ نہ آیا تو کسی تکدر کے بغیر وہاں سے ہٹی اور اپنی سہیلی کو تلاش کر کے اندر سنیما میں چلی گئی۔
جمال اس وقت پہنچا جب وہ فرسٹ کلاس میں داخل ہو رہی تھی۔ زینت نے اسے دیکھا، اس کے ملتجی چہرے اور اس کی معافی کی خواستگار آنکھوں کو، مگر اس نے اس کو گیٹ کیپر کی بھی حیثیت نہ دی اور اندر داخل ہوگئی۔ شو چونکہ شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اتنی نوازش کی کہ جمال کی طرف دیکھ کر گیٹ کیپر سے کہا، ’’معاف کیجیے گا ہم لیٹ ہوگئے۔ ‘‘
جمال شو ختم ہونے تک باہر کھڑا رہا۔ جب لوگوں کا ہجوم سینما کی بلڈنگ سے نکلا تو اس نے زینت کو دیکھا۔ آگے بڑھ کے اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے اس کے ساتھ بالکل اجنبیوں سا سلوک کیا چنانچہ اسے مایوس گھر لوٹنا پڑا۔
اس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بال بنوانے اور نہا دھو کر کپڑے پہننے میں اسے دیر ہوگئی تھی۔ اس نے رات کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایک خط لکھا جو معذرت نامہ تھا۔ وہ زینت کو پہنچا دیا، یہ خط پڑھ کر جب وہ مقررہ وقت پر کوٹھے پر آئی تو جمال نے اس کے تیوروں سے محسوس کیا کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔ اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ زینت کو جمال سے شکایت رہتی کہ وہ خط بہت لمبے لکھتا ہے جو ضرورت سے زیادہ جذبات سے پر ہوتے ہیں۔ وہ اختصار کی قائل تھی، محبت اس کو بھی جمال سے ہو چکی تھی مگر وہ اس کے اظہار میں اپنی طبیعت کے موافق کفایت برتتی تھی۔
آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہوگئی مگر ادھر دونوں کے والدین رضا مند نہیں ہوتے تھے۔ بہر حال بڑی مشکلوں کے بعد یہ مرحلہ طے ہوا اور جمال کے گھر زینت دلہن بن کے پہنچ گئی۔ حجلۂ عروسی سجا ہوا تھا، ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ جمال کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا، عشق و محبت کا۔ اس نے چنانچہ عجیب و غریب حرکتیں کیں، زینت کو سر سے پاؤں تک اپنے ہونٹوں کی سجدہ گاہ بنا ڈالا۔
زینت کو جذبات کا یہ بے پناہ بہاؤ پسند نہ آیا، وہ اکتا گئی۔ ٹھیک دس بجے سو جانے کی عادی تھی۔اس نے جمال کے تمام جذبات ایک طرف جھٹک دیے اور سو گئی۔ جمال نے ساری رات جاگ کر کاٹی۔ زینت حسبِ معمول صبح ٹھیک چھ بجے اٹھی اور غسل خانے میں چلی گئی۔ باہر نکلی تو اپنے ٹخنوں تک لمبے بالوں کا بڑی چابک دستی سے جوڑا بنانے میں مصروف ہوگئی۔ اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ جمال سے مخاطب ہوئی، ’’ڈارلنگ مجھے بڑا افسوس ہے۔ ‘‘
جمال اس ننھے سے جملے سے ہی خوش ہوگیا جیسے کسی بچے کو کھلونا مل گیا ہو۔ اس نے دل ہی دل میں اس فضا ہی کو چومنا شروع کر دیا جس میں زینت سانس لے رہی تھی۔ وہ اس سے والہانہ طور پر محبت کرتا، اس قدر شدید انداز میں کہ زینت کی مقدار پسند طبیعت برداشت نہیں کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک طریقہ طے ہو جائے جس کے مطابق محبت کی جائے ۔
ایک دن اس نے جمال سے کہا، ’’آپ مجھ سے یقیناًناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے محبت کا جواب تار کے سے اختصار سے ملتا ہے لیکن میں مجبور ہوں،میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے۔ آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہیے،آپ کا پیار بعض اوقات میرے لیے بہت بڑی مصیبت بن جاتا ہے، آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
جمال نے بہت خیال رکھا۔ ناپ تول کر بیوی سے محبت کی مگر ناکام رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں میں ناچاقی ہوگئی۔ زینت نے بہت سوچا کہ طلاق ہی بہتر صورت ہے جو بد مزگی دور کرسکتی ہے۔ چنانچہ جمال سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اس نے طلاق کے لیے جمال کو کہلوا بھیجا۔ اس نے جواب دیا کہ مر جائے گا مگر طلاق نہیں دے گا۔ وہ اپنی محبت کا گلا ایسے بے رحم طریقے سے گھونٹنا نہیں چاہتا۔
زینت کے لیے جمال کی یہ محبت بہت بڑی مصیبت بن گئی تھی۔ اس نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں پہلے روز جب فریقین حاضر ہوئے تو عجیب تماشا ہوا۔ جمال نے زینت کو دیکھا تو اس کی حالت غیر ہوگئی۔ اس کے وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ سماعت اور کسی تاریخ پر ملتوی کر دی جائے۔ زینت کو بڑی کوفت ہوئی، وہ چاہتی تھی کہ جلد کوئی فیصلہ ہو۔ اگلی تاریخ پر جمال حاضر عدالت نہ ہوا کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے مہینے کی تاریخ پر بھی وہ نہ آیا تو زینت نے ایک رقعہ لکھ کر جمال کو بھیجا کہ وہ اسے پریشان نہ کرے اور جو تاریخ مقرر ہوئی ہے اس پر وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ تاریخ سولہ اگست تھی۔ رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی، زینت حسبِ معمول صبح چھ بجے اٹھی، نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے وکیل کے ساتھ تانگے میں عدالت پہنچ گئی۔ اس کو یقین تھا کہ جمال وہاں موجود ہوگا اس لیے کہ اس نے اس کو لکھ بھیجا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور اسے جمال نظر نہ آیا تو اس کو بہت غصہ آیا۔
مقدمہ اس دن سر فہرست تھا۔ مجسٹریٹ نے عدالت میں داخل ہوتے ہی تھوڑی دیر کے بعد جمال اور زینت کو بلایا۔ زینت اندر جانے ہی والی تھی کہ اس کو جمال کی آواز سنائی دی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کا چہرہ خون میں لِتھڑا ہوا تھا، بالوں میں کیچڑ ،کپڑوں پر خون کے دھبے،لڑکھڑاتا ہوا وہ اس کے پاس آیا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا،’’زینت مجھے افسوس ہے، میری موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں ۔۔۔‘‘
جمال کے ماتھے پر گہرا زخم تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ زینت نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور پٹی بنا کر اس پر باندھ دی اور جمال نے جذبات سے مغلوب ہو کر وہیں عدالت کے باہر اس کا منہ چوم لیا۔ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ وکیل سے کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی، مقدمہ واپس لے لیا جائے۔
جمال دس دن ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں زینت اس کی بڑی محبت سے تیمار داری کرتی رہی۔ آخری دن جب جمال مشین پر اپنا وزن دیکھ رہا تھا تو اس نے زینت سے دبی زبان سے پوچھا، ’’میں اب تم سے کتنی محبت کرسکتا ہوں؟‘‘
زینت مسکرائی، ’’ایک من۔ ‘‘
جمال نے وزن کرنے والی مشین کی سوئی دیکھی اور زینت سے کہا، ’’مگر میرا وزن تو ایک من تیس سیر ہے۔ میں یہ فالتو تیس سیر کہاں غائب کروں؟ ‘‘
زینت ہنسنے لگی۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |