رس کی انوکھی لہریں
میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا کی آنکھیں مجھے دیکھتی جائیں یوں دیکھتی جائیں جیسے
کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے
لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے
مگر بوجھ پتوں کا اترے ہوئے پیرہن کی طرح سچ کے ساتھ ہی فرش پر ایک مسلا ہوا
ڈھیر بن کر پڑا ہو
میں یہ چاہتی ہوں کہ جھونکے ہوا کے لپٹتے چلے جائیں مجھ سے
مچلتے ہوئے چھیڑ کرتے ہوئے ہنستے ہنستے کوئی بات کہتے ہوئے لاج کے بوجھ
سے رکتے رکتے سنبھلتے ہوئے رس کی رنگین سرگوشیوں میں
میں یہ چاہتی ہوں کبھی چلتے چلتے کبھی دوڑتے دوڑتے بڑھتی جاؤں
ہوا جیسے ندی کی لہروں سے چھوتے ہوئے سرسراتے ہوئے بہتی جاتی ہے رکتی
نہیں ہے
اگر کوئی پنچھی سہانی صدا میں کہیں گیت گائے
تو آواز کی گرم لہریں مرے جسم سے آ کے ٹکرائیں اور لوٹ جائیں ٹھہرنے نہ پائیں
کبھی گرم کرنیں کبھی نرم جھونکے
کبھی میٹھی میٹھی فسوں ساز باتیں
کبھی کچھ کبھی کچھ نئے سے نیا رنگ ابھرے
ابھرتے ہی تحلیل ہو جائے پھیلی فضا میں
کوئی چیز میرے مسرت کے گھیرے میں رکنے نہ پائے
مسرت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے
کھلا کھیت گندم کا پھیلا ہوا ہے
بہت دور آکاش کا شامیانہ انوکھی مسہری بنائے رسیلے اشاروں سے بہکا رہا ہے
تھپیڑوں سے پانی کی آواز پنچھی کے گیتوں میں گھل کر پھسلتے ہوئے اب نگاہوں سے اوجھل ہوئی جا رہی ہے
میں بیٹھی ہوئی ہوں
دوپٹا میرے سر سے ڈھلکا ہوا ہے
مجھے دھیان آتا نہیں ہے مرے گیسوؤں کو کوئی دیکھ لے گا
مسرت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے
بس اب اور کوئی نئی چیز میرے مسرت کے گھیرے میں آنے نہ پائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |