رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
Appearance
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منہ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میرؔ
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |