رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجئے
حالت غم کو نہ بھولا چاہئے شادی میں بھی
خندۂ گل دیکھ کر یاد اشک شبنم کیجئے
عیب الفت روز اول سے مری طینت میں ہے
داغ لالہ کے لیے کیا فکر مرہم کیجئے
اپنی راحت کے لیے کس کو گوارا ہے یہ رنج
گھر بنا کر گردن محراب کو خم کیجئے
عشق کہتا ہے مجھے رام اس بت وحشی کو کر
حسن کی غیرت اسے سمجھاتی ہے رم کیجئے
رات صحبت گل سے دن کو ہم بغل خورشید سے
رشک اگر کیجے تو رشک بخت شبنم کیجئے
دیدہ و دل کو دکھایا چاہئے دیدار یار
حسن کے عالم سے آئینوں کو محرم کیجئے
شکل گل ہنس ہنس کے روز وصل کاٹے ہیں بہت
ہجر کی شب صبح رو کر مثل شبنم کیجئے
تھی سزا اپنی جو شادی مرگ قسمت نے کیا
ہجر میں کس نے کہا تھا وصل کا غم کیجئے
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
روز مردم شب کیے دیتا ہے سرمہ پوچھیے
خون ہوتے ہیں بہت شوق حنا کم کیجئے
آئینہ کو روبرو آنے نہ دیجے یار کے
شانہ سے آتشؔ مزاج زلف برہم کیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |