رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
Appearance
رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
اب اور ہی معشوق سے یارانہ کریں گے
باندھیں گے کسی اور ہی جوڑے کا تصور
سر دھیان میں اس زلف کے مارا نہ کریں گے
امکان سے خارج ہے کہ ہوں تجھ سے مخاطب
ہم نام کو بھی تیرے پکارا نہ کریں گے
یک بار کبھی بھولے سے آ جائیں تو آ جائیں
لیکن گزر اس گھر میں دوبارا نہ کریں گے
کیا خوب کہا تو نے جو کھولوں ابھی آغوش
ملنے سے مرے آپ کنارا نہ کریں گے
گو خاک میں مل جائیں ہم اور وضع بدل جائیں
پر تجھ سے ملاقات خود آرا نہ کریں گے
اس نرگس بیمارؔ سے رکھتے ہیں شباہت
ہرگز سوئے عبہر بھی اشارا نہ کریں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |